کیا مسافروں پر بھی جماعت واجب ہے؟

سوال نمبر 1571

اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎ 

کیا فرماتے ہیں علماۓ کرام ومفتیان شرع متین مسٸلہ ذیل کے بارے میں کیا مسافروں پر بھی جماعت واجب ہے قرآن وحدیث کی روشنی میں مفصل جواب عنایت فرماٸیں مہربانی ہوگی فقط والسلام 

رضویہ 

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

الجواب بعون الملک الوہاب

     مسافر کو جماعت سے نماز پڑھنا واجب نہیں نور الایضاح  ص ٧٧ باب الامامۃ کے تحت فصل اول میں یسقط حضورالجماعۃ بواحد  من ثمانیۃ عشر شیئا کے تحت ارادۃ سفر بھی مذکور ہے جس کا صاف و صریح مطلب یہ ہے کہ ارادۂ سفر جماعت میں حاضر ہونے کو ساقط کر دیتا ہے

 اور در مختار باب الامامۃ ص ٧٦ پر عدم وجوب جماعت کے تحت ارادۃ سفر کا لفظ صراحتا موجود ہے جس سے ظاہر ہے کہ مسافر کا جماعت سے نماز پڑھنا واجب نہیں

اور اعلی حضرت امام احمد رضا فاضل بریلوی رضی اللہ عنہ تحریر فرماتے ہیں  لا تجب (یعنی الجماعۃ )علی من حال بینه وبینھا مطر وطین وبرد شدید  اس شخص پر جماعت واجب نہیں جس کے لۓ بارش کیچڑ اور شدید سردی رکاوٹ بن جاۓفتاوی رضویہ جلد ١٦ ص ٢٨٨

اور اسی سے قبل فرمایا کہ یہ سب جماعت ،،،تو جماعت خود فرض جمعہ میں عذر ہیں اور حضور صدرالشریعہ بدرالطریقہ حضرت علامہ امجدعلی اعظمی علیہ الرحمہ تحریرفرماتے ہیں یونہی مسافر شہر میں آیا اور نیت اقامت نہ کی تو جمعہ فرض نہیں بہار شریعت ،ح چہارم ،ص ٧٦٣

اس سے ثابت ہوا کہ مسافر پر جماعت بھی واجب نہیں ، کیوں کہ جب جمعہ فرض عین ہے اور اس کی فرضیت ظہر سے زیادہ مؤکد ہے اور اس کا منکر کافر ہے 

جیسا کہ صراحتا مذکور ہے  (ھی فرض) عین (یکفر جاحدھا) لثوبتھا بالدلیل القطعی درمختار  ص ١٠٧  کتاب الصلاۃ

توجماعت جو  فرض عین نہیں بلکہ اس سے درجہ میں کم ہے تو بدرجہ اولی ذمۂ مسافر سے ساقط ہوگا۔والله تعالی اعلم بالصواب

کتبه 

  محمد فرقان برکاتی امجدی

٢٦،،شوال المکرم   ١٤٤٢ ھ

      ٨  ،،جون      ٢٠٢١ ء


فتاوی مسائل شرعیہ







ایک تبصرہ شائع کریں

1 تبصرے

  1. فقہاء کرام نے ارادہ سفر کو ترک جماعت کیلئے عذر قرار دیا ہے اور اسکی وضاحت اس سے کی کہ یعنی جب اس کو گاڑی یا قافلہ کے نکل جانے کا خوف ہو ۔۔۔۔۔جبکہ نفس سفر کو عذر شمار نہیں کیا گیا بلکہ علامہ شامی نے تو اس کی صراحت فرمائی کہ نفس سفر عذر نہیں اور سیدی امام اہلسنت نے جدالممتار میں اس کو قائم رکھا ۔۔۔۔۔۔لہذا ارادہ سفر کی قید کا لحاظ ضروری ہے اور امن و قرار کی حالت میں مسافر پر جماعت واجب ہوگی ۔۔۔۔۔واللہ تعالٰی اعلم بالصواب۔۔۔۔۔
    (قوله وإرادة سفر)
    أي وأقيمت الصلاة ويخشى أن تفوته القافلة بحر؛ وأما السفر نفسه فليس بعذر كما في القنية
    ]ابن عابدين، الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار)، ٥٥٦/١[
    قال الامام احمد رضا القادری فی حاشیتہ علی ردالمحتار۔
    اقول: لکن فی عمدۃ القاری (ان الجماعۃ لاتتأکد فی حق المسافر لوجود المشقۃ) اھ۔ وان حمل ھذا علی الفرار و ذلک علی القرار حصل التوفیق۔
    ]جد الممتار علی ردالمحتار،3/276[
    أو يريد سفرا وأقيمت الصلاة فيخشى أن تفوته القافلة
    [الفتاوى الهندية ,1/83]
    قوله: "وإرادة سفر تهيأ له" لعل المراد التهيؤ القريب من الفعل وهو منصوب على الظرفية أي وقت التهيؤ له بأن كان مشغول البال بمصالحه
    [حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح، صفحة ٢٩٨]
    [email protected]

    جواب دیںحذف کریں

Created By SRRazmi Powered By SRMoney