کیا اللہ تعالٰی حاضر و ناظر ہے؟

سوال نمبر 1581

السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ۔

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ دیوبندی کہتاہے بریلوی حضورﷺکوحاضروناظرمانتے ہیں اورحاضروناظرصرف اللہ ہے دیوبندی گستاخ رسول کو کیاجواب دیاجاۓ علماۓ کرام رہنماٸی فرماٸیں۔

المستفتی عرفان احمد،بنارس۔

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم 

الجواب بعون الملک الوھاب:

ہرجگہ حاضروناظرہونااللہ کی صفت ہرگزنہیں ۔خداۓ پاک جگہ اورمکان سے پاک ہے۔کتب عقاٸد میں ہے : "لایجری علیہ زمان ولایشتمل علیہ مکان" یعنی نہ خداپرزمانہ گزرے اورنہ کوٸی جگہ خداکوگھیرے ۔اللہ پاک حاضرہےمگربےغیر جگہ کے ۔اسی لۓ ثم استوی علی العرش کو متشابہات سے ماناگیا ہے اور"بکل شٸ محیط"وغیرہ آیات میں مفسرین فرماتے ہیں "علما وقدرة"یعنی اللہ کا علم  اور اس کی قدرت عالم کو کھیرے ہوۓ ہے۔خدا کو ہرجگہ میں ماننا بےدینی ہے (جا ٕ الحق ،ص١٥٣)

 اب رہا ان کا کہنا کہ بریلوی حضورﷺ کو حاضروناظر مانتےہیں  توبےشک  اس میں  اہلسنت والجماعت کو  کوٸی شک نہیں اللہ پاک نے  اپنے حبیب  ﷺکوحاضروناظربنایا ہے  تو ہم مانتے ہیں۔

 اس بات کو سمھجنےکے لۓ پہلے تھوڑی سی تمہیدی بات سمجھ لیں!

اللہ رب العزت نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو بےشمار کمالات سےنوازا جن میں سے ایک حاضر و ناظر ہونا بھی ہے۔

حاضر و ناظر ہونے کا معنی یہ ہے   کہ قدسی ( یعنی اللہ کی دی ہوئی) قوت والا ایک ہی جگہ رہ کر تمام عالم (یعنی سارے جہان، زمین و آسمان، عرش و کرسی، لوح و قلم، ملک و ملکوت) کو اپنے ہاتھ کی ہتھیلی کی طرح دیکھے اور دور و قریب کی آوازیں  سنے یا ایک آن (لمحہ بھر) میں تمام عالم کی سیر کرے اور سینکڑوں میل دور حاجت مندوں کی حاجت روائی کرے۔ یہ رفتار خواہ روحانی ہو یا جسم مثالی کے ساتھ ہو یا اسی مبارک جسم سے ہو جو قبر میں  مدفون ہے۔ (جاء الحق،ص ١٣١ملخصاً)

اب چند حوالہ جات بھی ملاحظہ کریں!

ارشادباری تعالی  ہے: (اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًا"  ترجمہ: بے شک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر و ناظر اور خوشی اور ڈر سناتا۔ (کنزالایمان ،سورة الفتح ، آیت ٨)

سیدی سرکاراعلی حضرت قدس سرہ  اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:بیشک ہم نے تمھیں بھیجا گواہ اور خوشی اور ڈر سناتا کہ جو تمہاری تعظیم کرے اسے فضل عظیم کی بشارت دو اور جو معاذاللہ بے تعظیمی سے پیش آئے اسے عذاب الیم کا ڈر سناؤ، اور جب وہ شاہد وگواہ ہوئے اور شاہد کو مشاہدہ درکار، تو بہت مناسب ہوا کہ امت کے تمام افعال و اقوال و اعمال و احوال اُن کے سامنے ہوں۔(اور اللہ  پاک نے آپ کو یہ مرتبہ عطا فرمایاہے جیساکہ) طبرانی کی حدیث میں  حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم فرماتے ہیں:"اِنَّ اللہ رَفَعَ لِیَ الدُّنْیَا فَاَنَا اَنْظُرُ اِلَیْھَا وَاِلٰی مَا ھُوَ کَائِنٌ فِیْھَا اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ کَاَنَّمَا اَنْظُرُ اِلٰی کَفِّیْ ھٰذِہٖ" بے شک  اللہ نے میرے سامنے دنیا اٹھالی تومیں دیکھ رہا ہوں اُسے اور جو اس میں قیامت تک ہونے والا ہے جیسے اپنی اس ہتھیلی کو دیکھ رہا ہوں۔(کنز العمال،ج ١١،ص٤٢٠موسسة الرسالة، حدیث نمبر٣١٩٧١، فتاویٰ رضویہ،ج ١٥،ص ١٦٩ملخصاً،رضافاٶنڈیشن،لاہور)

اس طرح کی متعددآیات کریمہ حاضروناظرکے ثبوت پر موجودہیں لیکن اس جگہ  طوالت کا لحاظ کرتے ہوۓ ایک ہی آیت پر اکتفا کرتا ہوں ۔

نیزفرامین مصطفی میں بھی  ”حاضر و ناظر“ کا مفہوم موجود ہے جیسے"فیقولان ماکنت تقول فی ھذالرجل لمحمد"نکیرین میت سے پوچھتے ہیں کہ تم ان کے {محمدﷺ)کےبارےمیں کیاکہتےتھے(مشکوة شریف باب اثبات عذاب القبر )

اشعة اللمعات میں اسی حدیث کے تحت ہے "یعنی ہذالرجل کہ می گویند آنحضرت رامی خواہند"

نیزحاضروناظرکے ثبوت پربزرگان دین کے ارشادات بھی موجود ہیں ۔

مزیدتفصیل کے لۓ علامہ مفتی احمدیارخاں نعیمی رحمة اللہ علیہ کی تصنیف لطیف "جا ٕ الحق " کی طرف رجوع فرماٸیں۔

            کتبہ

ابوکوثرمحمدارمان علی قادری جامعی ،بھگوتی پور۔

خادم:مدرسہ اصلاح المسلمین ومدینہ جامع مسجد ،دربھنگہ (بہار)

٢٥/شوال ١٤٤٢ھ۔

٧/جون ٢٠٢١ ٕ۔


فتاوی مسائل شرعیہ







ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney