دو بیویاں چار لڑکے تین لڑکیوں میں مال کیسے تقسیم کیاجا ئے؟

سوال نمبر 1610

السلام علیکم و رحمۃاللہ وبرکاتہ

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ زید کا انتقال ہو گیا ہے اس کی دو بیویاں ہیں ہندہ اور زینب چار لڑکے 1 عمر 2 خالد 3 بکر 4 حسن    تین لڑکیاں 1 فاطمہ 2 رقیہ 3 کلثوم اب سوال یہ ہے کہ زید کی وراثت کس کو کتنا ملیگا؟ جواب دیکر شکریہ کا موقع دیں

المستفتی حافظ محمد مزمل حسین اشرفی،پالی راجستھان

باسمہ تعالی وتقدس الجواب:- صورت مسئولہ میں جاننا چاہیے کہ جب کسی کا انتقال ہوجائے تو پہلے تین چیزیں اس کے مال و اسباب سے پوری کی جائیں گی(1)سب سے پہلے تجہیز و تکفین کا خرچ پورا کیا جائے گا۔عام طور پر دوست احباب رشتہ دار خرچ کردیتے ہیں اور کوئی مطالبہ نہیں کرتے یہ بھی درست ہے، البتہ بیوی کا انتقال ہوا اور شوہر زندہ ہے تو اس کی تجہیز و تکفین (کفن دفن)کا خرچ اس کے مال سے نہیں کیا جائے گا بلکہ شوہر پر لازم ہوگا(2) دوسرے نمبر پر مرحوم کے قرض کی ادائیگی اس کے مال سے کی جائے گی (3)تجہیز و تکفین کے اخراجات نکالنے کے بعد اور قرض کی ادائیگی کے بعد اگر کوئی جائز وصیت کی ہو تو تہائی ترکے سے وصیت پوری کی جائے گی۔ اس کے بعد بچنے والا مال ورثاء میں ان کے حصوں کے مطابق تقسیم ہوگا۔

   اور پوچھی گئی صُورت میں مرحوم کا مکمل ترکہ 176 حصوں پر تقسیم ہوگا اُن میں (11،11)حصّے ہر ایک بیوہ کو ملیں گے،کیونکہ میت کی اولاد ہونے کی صورت میں بیوہ کو آٹھواں حصّہ ملتا ہے۔چنانچہ قرآن کریم میں ہے: فان کان لکم ولد فلہن الثمن مما ترکتم۔(النساء)

ترجمہ:- پھر اگر تمہارے اولاد ہو تو ان کا تمہارے ترکہ میں سے آٹھواں۔

   اور بقیہ 154 حصے مرحوم کے چار بیٹوں اور تین لڑکیوں کے درمیان تقسیم ہوں گے اور وہ اس طرح کہ ہر ایک بیٹے کو (28،28)حصے ملیں گے جبکہ ہر ایک بیٹی کو (14،14) حصے ملیں گے۔کیونکہ بیٹے کو بیٹی کے مقابلے میں دگنا حصہ ملتا ہے۔چنانچہ قرآن کریم میں ہے:

یوصیکم اللہ فی اولادکم للذکر مثل حظ الانثیین۔ (النساء)

ترجمہ:- اللہ تمہیں حکم دیتا ہے تمہاری اولاد کے بارے میں بیٹے کا حصہ دو بیٹیوں کے برابر ہے۔

واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب

      کتبہ

محمد اُسامہ قادری

متخصص فی الفقہ الاسلامی

پاکستان،کراچی


    تعلیمات وارث انبیاء







ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney