سوال نمبر 1624
السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ
زید نے کسی کو نماز کی دعوت دی اور جواب میں اس نے کہا میں نماز نہیں پڑھو نگا۔
تو زید پر کیا حکم شرع صادر ہوگا؟
المستفتی عبداللہ
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
میں نماز نہیں پڑھوں گا، اس کہنے میں متعدد احتمال ہیں چند ایک ملاحظہ ہوں۔
(1) ایک تو یہ کہ نماز نہیں پڑھتا اس لئے کہ پڑھ چکا۔(2)دوسرا یہ کہ نماز نہیں پڑھتا یعنی تیرے حکم سے نہیں پڑھتا اس لئے تجھ سے جو بہتر ہے وہ حکم کرچکا ہے۔
(3)تیسرا یہ کہ نہیں پڑھتا یعنی بے باکی اور فسق کے طور پر کہا۔
(4)چوتھا یہ کہ ناپاک تھا اس وجہ سے کہا کہ میں نماز نہیں پڑھوں گا۔
ان چاروں صورتوں میں وہ کافر نہیں ہوگاالبتہ توبہ کا حکم دیں گے
(5)پانچواں یہ کہ نماز نہیں پڑھتا اس وجہ سے کہ مجھ پر نماز فرض نہیں ہے اور نہ مجھے اس کا حکم دیا گیا ہے، اس پانچویں صورت میں وہ کافر ہوجائے گا اور اگر اس نے جواب میں مطلقًا یہ کہا کہ میں نماز نہیں پڑھتا تو وہ ان وجوہ کی وجہ سے کافر نہیں ہوگا۔
امام اہلسنت امام احمد رضا خان حنفی متوفی1340ھ لکھتے ہیں:اقوال کا کلمہ کفر ہونا اور بات،اور قائل کو کافر مان لینا اور بات،ہم احتیاط برتیں گے سکوت کریں گے جب تك ضعیف سا ضعیف احتمال ملے گا حکم کفر جاری کرتے ڈریں گے۔
(فتاوی رضویہ،جلد15)
اور بہارِ شریعت حصہ9 میں ہے:کسی کلام میں چند معنے بنتے ہیں بعض کفر کی طرف جاتے ہیں بعض اسلام کی طرف تو اس شخص کی تکفیر نہیں کی جائے گی (یعنی اس کوکافر قرار نہیں دیاجائے گا)۔ہاں اگر معلوم ہو کہ قائل نے معنی کفر کا ارادہ کیا مثلاً وہ خود کہتا ہے کہ میری مراد یہی ہے تو کلام کا محتمل ہونا نفع نہ دیگا۔ یہاں سے معلوم ہوا کہ کلمہ کے کفر ہونے سے قائل کا کافر ہونا ضرور نہیں۔
لہٰذا اُس شخص کی تکفیر نہیں کی جائے ہے ہاں توبہ کرے اور اس طرح کا جملہ نہ استعمال کرے اوراگر وہ اس بات کا معترف ہے کہ میں نے فرضیت کا انکار کرتے ہوئے یہ جملہ کہا تھا تو اب اُس کے کافر ہوجانے میں ذرہ برابر شبہ نہیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
*کتبہ:-* محمد اُسامہ قادری
متخصص فی الاسلامی
پاکستان،کراچی
0 تبصرے