قربانی ‏کا ‏ذبیحہ ‏کرکے بدلے ‏میں ‏سر ‏لینا ‏کیسا؟ ‏

سوال نمبر 1643

 السلامُ علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ بعض جگہ کے امام صاحب قربانی کا جانور ذبح کرکے اس  کا سرا (سر) لے لیتے ہیں اور اسے مناسب قیمت پرفروخت بھی کردیتے ہیں جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ ایسا کیوں کرتے ہیں؟ تو وہ کہتے ہیں کہ یہاں پہلے سے ہی لینے کا یہ رواج ہے اس لئے میں بھی لیتا ہوں اب سوال یہ ہے کہ ایسے اماموں کے لئے شرعی حکم کیا ہوگا ؟

المستفتی : محمد ساجد رضا رضوی فریدی مقام و پوسٹ گنگور ضلع مدھوبنی بہار


وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

الجواب بعون الملک الوہاب

اگر واقعی بعض جگہوں پر امام حضرات جانور کا سر اپنا حق سمجھتے ہیں اور ذبح کرنے کی اجرت میں اس کو لے لیتے ہیں بلکہ نہ دینے پر جبر کرتے ہیں تو ان کا یہ فعل شرعاً ناجائز ہے آئندہ اس سے اجتناب لازم ہے کیوں کہ اجرت کے طور پر اس طرح لینا اور دینا شرعاً ناجائز ہے  ۔

     بہار شریعت میں ہے کہ ٫٫ قربانی کا چمڑا یا گوشت یا اس میں سے کوئی چیز قصاب یا ذبح کرنے والے کو اجرت میں نہیں دے سکتا،،اھ 

 (ص346ح  16مکتبۃالمدینہ)


ہاں اگر اجرت کے طور پر نہ ہو اور نہ کوئی طے پایا گیا ہو اورنہ وہاں اجرت کے طور پر لینے دینے کا رواج ہو بلکہ لوگ تحفتاً دیتے ہوں تو لینے میں کوئی حرج نہیں ۔

     حضور صدرالشریعہ علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں کہ

٫٫چمڑا امام مسجد کو دیا جاتا ہے اگر امام کی تنخواہ میں  نہ دیا جاتا ہو بلکہ اعانت کے طور پر ہو تو حرج نہیں ،،اھ

(بہار شریعت ص 353ح 16مکتبۃالمدینہ)


   صورت ثانیہ میں جب لینے ، دینے میں کوئی حرج نہیں تو امام اس کو فروخت بھی کرسکتا ہے، شرعاً اس میں کوئی حرج نہیں۔


واللہ اعلم

کتبہ فقیر محمد امتیاز قمر رضوی امجدی عفی عنہ گریڈیہ جھارکھنڈ انڈیا







ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney