نابالغ بچوں کے نام قربانی کرنا کیسا ہے؟

 

سوال نمبر 1655

 السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ 

نابالغ پر قربانی واجب نہیں اگر کوئی اپنے نابالغ بچوں کی طرف سے قربانی کرنا چاہے تو کیا حکم ہے 

المستفتی اشرف رضا قادری


وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 

              الجواب

  اگر کوئی شخص اپنے نابالغ بچوں کی طرف سے قربانی کرنا چاہے تو کرسکتا مستحب ہے کوئی قباحت نہیں " جیساکہ حضور صدرالشریعہ فرماتے ہیں "  نابالغ کی طرف سے اگرچہ واجب نہیں ہے مگر کردینا بہتر  ہے

 "اھ( بہار شریعت ج 3 ح 15 قربانی کا بیان ص 334 مسئلہ نمبر  /14 مکتبہ دعوت اسلامی ) 

اور حضرت علامہ ابو الحسن محمد قاسم ضیاءالقادری فرماتے ہیں " اگر والد نے اپنے مال سے نابالغ بچے کی طرف سے قربانی کردی تو بہتر ہے 

"اھ (فتاویٰ یورپ وبرطانیہ ص 382)

اور سرکار اعلٰی حضرت محقق بریلوی فرماتے ہیں " اولاد صغار کی طرف سے قربانی اپنے مال سے کرنا واجب نہیں ہاں مستحب ہے اور قربانی جس پر واجب ہے اس پر ایک ہی واجب ہے زیادہ نفل ہے چاہے ہزار جانور قربانی کرے گا ثواب ہے نہ کرے گا کچھ مواخذہ نہیں "فی الدرالمختار تجب التضحیۃ عن نفسہ لاعن طفلہ علی الظاھر بخلاف الفطرۃ، شاۃ او سبع بدنہ  ملتقطا وفي الخانية في ظاهر الرواية يستحب ولا يجب بخلاف صدقة الفطر والفتويٰ   علي ظاهر الرواية "درمختار میں ہے قربانی خود اپنے طرف سے واجب ہے نابالغ اولاد کی طرف سے اس پر واجب نہیں بخلاف فطرانہ کے۔قربانی کے لئے بکری یا اونٹ یا (بقرہ) کا ساتواں حصہ واجب ہے اور خانیہ میں ہے کہ ظاہر روایت یہ ہے کہ نابالغ کی طرف سے مستحب ہے واجب نہیں بخلاف صدقہ فطرہ کے اور فتویٰ ظاہر روایتہ پر ہے " اور آگے فرماتے ہیں نابالغ اگرچہ کسی قدر مالدار ہو نہ اس پر قربانی واجب ہے نہ اس کی طرف سے اس کے باپ پر 

"اھ (فتاویٰ رضویہ شریف ج 20 ص 369 / 454 رضا فاؤنڈیشن) 


واللہ اعلم بالصواب 

محمد ریحان رضا رضوی 

فرحاباڑی ٹیڑھاگاچھ وایہ بہادر گنج 

ضلع کشن گنج بہار انڈیا 







ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney