سوال نمبر 1634
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان کرام اس مسئلہ میں کہ زید ایک بیوی اور ایک لڑکی کو چھوڑ کر انتقال کرگیا ہے، یہی اُس کے وارث ہیں،اور واضح رہے کہ زید کی دو بیویاں تھیں لیکن ایک بیوی کا انتقال زید کی حیات میں ہوگیا تھا اور زید کی جو لڑکی ہے وہ پہلی بیوی سے ہے، لہٰذا شریعت کے مطابق زید کی ملکیت سے کس کو کتنا حصہ ملے گا اس کا جواب عنایت فرمائیں۔
باسمہ تعالیٰ وتقدس
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
الجواب
صورتِ مسئولہ میں جاننا چاہیے کہ جب کسی کا انتقال ہوجائے تو پہلے تین چیزیں اُس کے مال و اسباب سے پوری کی جائیں گی(1)سب سے پہلے تجہیز و تکفین(یعنی کفن دفن) کا خرچ پورا کیا جائے گا۔عام طور پر دوست احباب رشتہ دار خرچ کر دیتے ہیں اور کوئی مطالبہ نہیں کرتے یہ بھی درست ہے، البتہ بیوی کا انتقال ہوا اور شوہر زندہ ہے تو اس کی تجہیز و تکفین کا خرچ اس کے مال سے نہیں کیا جائے گا بلکہ شوہر پر لازم ہوگا(2)دوسرے نمبر پر مرحوم کے قرض کی ادائیگی اُس کے مال سے کی جائے گی(3)تجہیز و تکفین کے اخراجات نکالنے کے بعد اور قرض کی ادائیگی کے بعد اگر کوئی جائز وصیت کی ہو تو تہائی ترکے سے وصیت پوری کی جائے گی۔ اس کے بعد بچنے والا مال ورثاء میں اُن کے حصوں کے مطابق تقسیم ہوگا۔
اور پوچھی گئی صورت میں مرحوم زید کا مکمل ترکہ آٹھ حصوں پر تقسیم ہوگا اُس میں سے بیوہ کو ایک حصّہ ملے گا، کیونکہ میت کی اولاد ہونے کی صورت میں بیوہ کو آٹھواں حصہ ملتا ہے۔چنانچہ قرآن کریم میں ہے :فَاِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ۔(النساء:12/4)
ترجمہ کنز الایمان:- پھر اگر تمہارے اولاد ہو تو ان کا تمہارے ترکہ میں سے آٹھواں۔
اور بقیہ سات حصے زید کی بیٹی کو ملیں گے، کیونکہ بیٹی اگر ایک ہو تو اُسے نصف حصہ ملتا ہے۔چنانچہ قرآن کریم میں ہے:
وَ اِنْ كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ (النساء:11/4)
ترجمہ کنز الایمان:- اور اگر لڑکی تو اُس کا آدھا۔
لیکن چونکہ زید کے مال سے بقیہ تین سہام بیٹی کو ہی بطورِ رد ملیں گے، لہٰذا اُسے کُل سات حصّے ملیں گے۔چنانچہ علّامہ سراج الدین محمد بن عبد الرشید سجاوندی حنفی متوفی600ھ لکھتے ہیں:
ان یکون مع الاوّل
(ای:مع الجنس الواحد ممّن یرد علیہ، کما فی الحاشیۃ) من لا یرد علیہ فاعط فرض من لا یرد علیہ من اقل مخارجہ فان استقام الباقی علی رؤوس من یرد علیہ فبھا کزوج وثلاث بنات۔
(السراجیۃ،باب الرد،ص59)
اور بہارِ شریعت میں ہے:اگر من یرد علیہ(یعنی جس پر رد ہوتا ہے) کی ایک جنس ہو اور من لا یرد علیہ بھی ہوں تو من لا یرد علیہ(یعنی جس پر رد نہیں ہوتا ہے) کا حصہ پہلے اس کے اقل مخارج سے دیا جائے گا اور اس مخرج سے جو بچے گا اس کو من یرد علیہ کے رؤس پر تقسیم کر دیا جائے گا اب اگر یہ باقی انکے رؤس پر پورا پورا تقسیم ہو جائے تب تو ضرب وغیرہ کی ضرورت نہیں۔
(بہارِ شریعت،رد کا بیان،حصہ20)
اور زید کی جو بیوی اُس سے پہلے انتقال کرگئی ہے اُس کا زید کی وراثت سے کوئی حق نہیں ہے، کیونکہ وراثت پانے کی شرائط میں سے ایک شرط یہ ہے کہ وارث مُورِث کی وفات کے وقت زندہ ہو۔چنانچہ علّامہ سیّد محمد امین ابن عابدین شامی حنفی متوفی1252ھ لکھتے ہیں:شروطہ ثلاثۃ۔۔۔وجود وارثہ عند موتہ حیاً حقیقۃ او تقدیراً کالحمل۔
(رد المحتار،کتاب الفرائض)
حاصل کلام یہ ہے کہ زید کے وارث اگر واقعی وہی ہیں جو سوال میں مذکور ہیں تو اُس کا مکمل ترکہ وراثت پر مقدّم اُمور کے بعد آٹھ حصوں پر تقسیم ہوگا جس میں سے بیوہ کو ایک حصہ ملے گا اور بیٹی کو سات حصے ملیں گے۔
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
کتبہ:-- محمد اُسامہ قادری
متخصص فی الفقہ الاسلامی
پاکستان،کراچی
الجواب صحیح:تاج محمد قادری واحدی،انڈیا
22،ذو الحجہ1442ھ۔3جولائی2021م
0 تبصرے