سوال نمبر 1708
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
حضرت کی بارگاہ میں اس ناچیز کا سوال یہ تحریر بہت جزباتی ہو کر لکھ رہی ہوں کیونکہ کئ بار اس ٹوپیک پر میں پوچھ چکی ہوں پر کہیں سے میرے دل کو تسلی بخش جواب نہیں ملا میں الحمدللہ سرکار تاج الشریعہ علیہ الرحمہ سے مرید ہوں اور شریعت پر الحمدللہ سختی سے قائم رہنے کی کوشش کر تی ہوں پر حضرت آپ سے آپ کی اپنی چھوٹی بہن یا بیٹی سمجھ کر آپ سے آپ کی بہن پوچھنا چاہتی ہے کیا شریعت میں جو چیز جائز ہے اس کو کرنا ہمیشہ صحیح ہے کیا کسی کی دل آزاری اگر اس جائز کام سے ہو رہی تو یہ غلط نہیں ہے؟ میرے سامنے کئی ایسی خواتین آئی جو مجبور ہیں ان کی زندگی میں صرف رونا ہی ہے میں انہیں دیکھ کر سوچتی ہوں کہ شریعت میں یہ تو کہیں نہیں کہ کسی کو اس قدر زندگی سے ہرا دیا جائے حضرت جب کوئی مرد اپنا حق سمجھ کر یہ کہے کی شریعت نے ہمیں اجازت دی ہے کہ ہم ایک سے زائد نکاح کرسکتے ہیں تو اس مرد کو یہ نظر آنا کیوں بند ہوجاتا ہے کہ وہ پہلے سے شادی شدہ ہے اور تو اور یہ کہتے ہیں کہ کیوں اس میں غلط کیا ہے شریعت نے اجازت دی ہے حالانکہ اگر وہ علم والا ہوتا تو کس صورت میں اجازت ہے کیا کیا کرنا ہے تو کبھی یہ اتنی بے باکی سے نہ کہتا حضرت میں نے اپنی ایک فرینڈ سے بات کی اس کا شوہر اتنی بے باکی سے کہتا ہے کہ اگر کوئی دوسری شادی کر لے تو غلط کیا ہے اگر وہ خوش رکھ سکے تو آپ خود بتائیں کہ کوئی عورت ایسے خوش ہو سکتی ہے کہ اس کا شوہر شادیوں اور گلیوں میں گھوم گھوم کر عشق کرے اور دوسری بیوی لے کر گھر آجائے اور اس پر کہے کہ خوش رہو تمہارے حقوق پورے کروں گا کیا پہلی بیوی کا کوئی حق نہیں اس کا دل نہیں اس کی دل آزاری نہیں ہوتی وہ جیتے جی مر جاتی ہے پھر ایسے شخص کے بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے؟ اور ہم نے سنا ہے شریعت میں دل آزاری کو بہت بڑا گناہ قرار دیا ہے۔ کسی غیر کا بھی دل دکھانا ہماری آخرت برباد کر سکتا ہے تو یہاں تو اس کا دل توڑا جاتا ہے جو تا عمر آپکے لئے گھر چھوڑ کے آتی ہے
کہ آپ عالم دین ہیں عوام کی مشکل کو سمجھنا ان کے سوالوں کے جواب دینا ان کی تسلی کے مطابق آپ بخوبی جانتے ہیں اس لئے مجھے تسلی بخش جواب عنایت فرمائیں۔۔
جزاک اللہ خیرا
سائلہ: کنیز فاطمہ حیدرآباد
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
الجواب بعون الملک الوھاب:
شریعت مطہرہ نے جو چیزیں حلال کی ہیں وہ حلال ہیں اور جو حرام کی ہیں وہ حرام ہیں ، قانون الٰہی پر سرِ تسلیم خم کرنا ہر مومن پر لازم و ضروری ہے ، جن چیزوں کا ذکر صراحتاً قرآن و حدیث میں موجود ہے اس میں اپنی طبیعت کا دخل اس بے باکی کے ساتھ دینا ضرور حماقت ہے!
شریعت مطہرہ کا جو قانون ہے یقینا ہماری اسی میں بھلائی اور ذریعۂ نجات ہے کچھ باتیں ایسی ہیں جو ہماری سمجھ میں آسانی سے آجاتی ہیں اور کچھ باتیں ایسی ہیں جو ہماری سمجھ میں نہیں آتی ہیں,
جو سمجھ میں آتی ہیں اس کی حکمت ہم جان لیتے ہیں اور جو ہماری سمجھ میں نہیں آتی ہیں وہ بھی حکمت سے خالی نہیں ہوتیں, مثلاً وضو ٹوٹتا کہیں اور جگہ سے ہے مگر دھلا کہیں اور جاتا ہے! غور کریں تو عقلاً جہاں سے وضو ٹوٹتا ہے دھلنا وہاں چاہئے، لیکن ایسا ہرگز نہیں ہر مسلمان وضو ویسے ہی کرتا ہے جیسا کہ شریعت مطہرہ کا حکم ہے اور اپنی عقل کا دخل نہیں دیتا بلکہ حکم شرع بجا لاتا ہے اگرچہ اس کے عقل و شعور اس کی حکمت سمجھنے سے قاصر ہوں!
اسی طرح وضو میں جو چیزیں فرض ہیں مثلاً چہرہ دھلنا ,کہنیوں سمیت ہاتھ دھلنا, مسح کرنا ,پاؤں دھلنا ، لیکن اس سے پہلے ہم گٹوں تک ہاتھ دھلتے ہیں، کلی کرتے ، ناک میں پانی ڈالتے، پھر چہرہ دھلتے ہیں، حالانکہ عقلاً ہونا یہ چاہیے کہ پہلے جو چیزیں فرض ہیں ہم وہ کریں لیکن ایسا نہیں کرتے بلکہ احکام شرع بجا لاتے ہیں اور اس کی حکمت غور کرنے کے بعد سمجھ میں آتی ہے کہ وضو کے لئے پانی کا رنگ، بو، مزہ، صحیح ہونا چاہیے گٹوں تک ہاتھ دھلنے سے پانی کا رنگ معلوم ہو جاتا ہے اور کلی کرنے سے مزہ اور ناک میں پانی ڈالنے سے بو کا علم ہو جاتا ہے۔ اس مثال سے واضح ہوجاتا ہے کہ ہر حکمت ہماری عقل و شعور کے موافق ہو ضروری نہیں بلکہ ضروری یہ ہے کہ حکم الٰہی پر سرِ تسلیم خم کردیں اگرچہ ہماری عقل و شعور میں وہ بات آئے یا نہ آئے۔ ٹھیک اسی طرح تعددِ ازدواج کا حکم الٰہی بھی ہے جس میں بہت سی مصلحتیں اور فوائد ہیں خواہ ہم سمجھیں یا نہ سمجھیں!
حضور پُر نور صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم نے کثیر شادیاں فرمائیں تو کیا پہلے سے موجود بیویوں کی دل آزاری فرمائی؟ حاشا و کلا، ہرگز نہیں!
محترمہ سائلہ دبے لفظوں میں گویا سرکار کو بھی موردِ الزام ٹھہرا رہی ہیں!
یہ سراسر عورتوں کی بے وقوفی اور حکمِ الٰہی کی نافرمانی ہے کہ ایک سے زائد چار تک کی مردوں کی شادیوں کو دل آزاری سمجھ بیٹھیں!
ہاں ایک زوجہ والا بھی اگر ظلم و تشدد کرے تو عند اللہ مجرم اور سزاوارِ عذاب ہوگا! مگر یہ جزائے گناہ عملِ ظلم پر ہے نہ کہ تعددِ ازدواج پر! اور اگر چاروں کے حقوق ادا کرنے والا اور برابری جو حسنِ سلوک کی عند الشرع مطلوب ہے بجا لانے والا ہو مستحق ثواب ہے نہ کہ لائقِ ملامت, عورتوں کو اپنے قدرِ واجب حقوق پر نظر رکھنی چاہیے نہ کہ دوسری بیویوں یا شادیوں سے حسد اور جلن یا انکار کرکے اپنا ٹھکانہ جہنم بنانا چاہئے!
یونہی عقلی گھوڑے دوڑانے کے بجائے رسولِ پاک صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام رضی الله تعالیٰ عنہم کی سنت اور کردار نیز سیرت پر نظر رکھنی چاہیے! دو چار صحابی رضی الله تعالیٰ عنہ کو چھوڑ کر کوئی صحابی ایسے نہ ہوئے جنہوں نے صرف ایک شادی پر اکتفا کیا ہو بلکہ خلفائے اربعہ کو ہی دیکھ لیں! سبھوں نے کئی کئی شادیاں کی ہیں!
ایسا اعتراض صنفِ نازک کی جانب سے صرف اور صرف اس لئے ہے کہ ان کی عقل بھی ناقص اور دین بھی ناقص ہے
جیسا کہ حدیث شریف میں موجود ہے: "وعن أبي سعيد الخدري قال خرج رسول الله صلى الله عليه و سلم في أضحى أو فطر إلى المصلى فمر على النساء فقال يا معشر النساء تصدقن فإني أريتكن أكثر أهل النار, فقلن و بم يا رسول الله! قال تكثرن اللعن و تكفرن العشير، ما رأيت من ناقصات عقل و دين أذهب للب الرجل الحازم من إحداكن قلن و ما نقصان ديننا و عقلنا يا رسول الله! قال أليس شهادة المرأة مثل نصف شهادة الرجل قلن بلى, قال فذلك من نقصان عقلها أليس إذا حاضت لم تصل ولم تصم قلن بلى قال فذلك من نقصان دينها ۔
(صحیح البخاری و صحیح مسلم )
مشکوۃ المصابیح کتاب الایمان حدیث ١٨)
شریعت مطہرہ نے مردوں کو چار عورتوں سے بیک وقت نکاح کرنے کی اجازت دی ہے
قال اللہ تعالیٰ
"فَانْكِحُوْا مَا طَابَ لَكُمْ مِّنَ النِّسَآءِ مَثْنٰى وَ ثُلٰثَ وَ رُبٰعَۚ - فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَةً اَوْ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْؕ - ذٰلِكَ اَدْنٰۤى اَلَّا تَعُوْلُوْاؕ"
(۳) سورہ نساء آیت نمبر 3)
ترجمہ: تو نکاح میں لاؤ جو عورتیں تمہیں خوش آئیں دو دو اور تین تین اور چار چار پھر اگر ڈرو کہ دو بیبیوں کو برابر نہ رکھ سکوگے تو ایک ہی کرو یا کنیزیں جن کے تم مالک ہو یہ اس سے زیادہ قریب ہے کہ تم سے ظلم نہ ہو۔
اِس آیت سے معلوم ہوا کہ آزاد مرد کے لئے ایک وقت میں چار عورتوں تک سے نکاح جائز ہے۔
( 2 )… تمام امّت کا اِجماع ہے کہ ایک وقت میں چار عورتوں سے زیادہ نکاح میں رکھنا کسی کے لئے جائز نہیں سوائے رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اور یہ بات آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خصوصیات میں سے ہے۔
ابوداؤد کی حدیث میں ہے کہ: "ایک شخص نے اسلام قبول کیا، اس کی آٹھ بیویاں تھیں ، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: اِن میں سے صرف چار رکھنا۔"
( ابو داؤد، کتاب الطلاق، باب فی من اسلم وعندہ نسائ۔۔۔ الخ، ۲ / ۳۹۶ ، الحدیث: ۲۲۴۱)
{ فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تَعْدِلُوْا }
{ پھر اگر تمہیں عدل نہ کرسکنے کا ڈر ہو۔}
آیت میں چار تک شادیاں کرنے کی اجازت دی گئی ہے لیکن اس کے ساتھ ہی فرمایا کہ اگر تمہیں اس بات کا ڈر ہو کہ ایک سے زیادہ شادیاں کرنے کی صورت میں سب کے درمیان عدل نہیں کرسکو گے تو صرف ایک سے شادی کرو۔ اسی سے یہ معلوم ہوا کہ اگر کوئی چار میں عدل نہیں کرسکتا لیکن تین میں کرسکتا ہے تو تین شادیاں کرسکتا ہے اور تین میں عدل نہیں کرسکتا لیکن دو میں کرسکتا ہے تو دو کی اجازت ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ بیویوں کے درمیان عدل کرنا فرض ہے، اس میں نئی، پرانی، کنواری یا دوسرے کی مُطَلَّقہ، بیوہ سب برابر ہیں۔ یہ عدل لباس میں ، کھانے پینے میں ، رہنے کی جگہ میں اور رات کو ساتھ رہنے میں لازم ہے۔ ان امور میں سب کے
ساتھ یکساں سلوک ہو۔ (تفسیر صراط الجنان)
یقینا اسلام میں مردوں کے لئے یہ جائز ہے کہ وہ چار عورتوں کو اپنے نکاح میں ایک ساتھ رکھ سکتے ہیں لیکن اس شرط کے ساتھ کہ سب بیویوں کے ساتھ عدل و انصاف کرنے کی صلاحیت ہو
دور حاضر میں اکثر لوگ نماز روزہ و زکوۃ ودیگر احکام شرعیہ کما حقہ بجا نہیں لاتے ہیں، والدین کے حقوق مکمل طور پر ادا نہیں کرتے ، تو ایسے لوگ بیویوں کے درمیان عدل و انصاف کیونکر کرسکیں گے؟ اس لئے ایک سے زائد نکاح کرنے سے پہلے دیگر حقوق اللہ اور حقوق العباد مکمل طور پر ادا کرنے کی کوشش کریں اور جب یہ سب ادا کرلینے لگیں پھر وہ دوسری شادیاں شوق سے کریں اور بیویوں کے درمیان میں عدل و انصاف کریں ورنہ روز محشر انجام برا ہوگا،
عورتوں کا یہ اعتراض کہ مردوں کے ایک سے زائد نکاح کرنے کے سبب سے عورتوں کی زندگی اجیرن ہوجاتی ہے ان کی زندگی میں صرف رونا ہی رونا ہوتا ہے خوشیاں ختم ہوجاتی ہیں عورت جیتے جی مرجاتی ہے اور یہ عورتوں کی دل آزاری ہے یہ سب حماقت و جہالت ہے۔
عہد رسالت سے لے کر ہمارے اکابرین تک کبھی کوئی شکایت عورتوں نے مردوں کے ایک سے زائد نکاح پر نہیں کیا اور تمام حیات خوشی کے ساتھ گزارا اور دور حاضر میں ایک ہی نکاح کرنے والے اکثر موجود ہیں اور عورتوں کا یہی رونا دھونا، درد و تکلیف کا معاملہ سننے میں آتا ہے کہ زندگی اجیرن ہوچکی ہے خوشیاں ختم ہو چکی ہیں اگر ایک سے زائد نکاح ہی عورتوں کی سب سے بڑی دل آزاری کا سبب ہے تو ایک ہی بیوی رکھنے والے مردوں کی عورتوں کا یہ شکوہ گلہ کیوں ہے؟
معلوم ہونا چاہئے کہ یہ سب پریشانیاں ایک سے زائد نکاح کرنے کے سبب نہیں بلکہ دین سے دوری کے سبب ہے , لوگوں کی جس قدر دین سے دوری بڑھتی جا رہی ہے شریعت مطہرہ پر عمل کرنے کے بجائے دنیاوی عیش و عشرت میں مست ہیں، یہی ان پریشانیوں کا سبب ہے اگر عورتیں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے فرمان پر سختی سے قائم رہیں اور حکم الٰہی بجا لاتی رہیں تو ہمیشہ خوش رہیں گی اور مرد ایک سے زائد شادی کرے یہ عورت کے دل آزاری کا سبب نہیں بن سکتا مگر افسوس صد افسوس دنیا لوگوں کے دلوں میں اس طرح رچ وبس گئی ہے کہ احکام شرعیہ بجا نہیں لاتے، پھر زندگی بھر رونا ہوتا ہے اور عورتیں مردوں کی دوسری شادیاں سن کر بوکھلا جاتی ہیں اگر شریعت مطہرہ پر مکمل طور پر عمل کرتیں اور دنیا کو ترجیح نہ دیتیں تو یہ حال ہرگز نہیں ہوتا۔،
سائلہ موصوفہ پر لازم ہے کہ توبہ و استغفار کریں اور احکام خداوندی کو بلا چوں چرا تسلیم کریں!
بالکل واضح ہے کہ یہ سب پریشانیاں ایک سے زائد نکاح کے سبب نہیں بلکہ ہمارے کرتوتوں کے باعث ہے ایک سے زائد نکاح کرنے کی اجازت شریعت مطہرہ نے جو دی ہے مردوں کو اس میں بے شمار حکمتیں مخفی ہیں دور حاضر میں ایک ساتھ زائد نکاح کو تنگ نظری سے دیکھنے کی وجہ سے نکاح جیسا آسان کام دشوار ہوگیا کہیں جہیز کی برائیاں بڑھیں تو کہیں بیواؤں کا کوئی پرسان حال نہیں رہا، تو کہیں مطلقہ کی زندگی تنہائی کے سبب دوبھر ہوگئی وغیرہ!
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
کتبہ: محمد ابراہیم خان امجدی قادری رضوی بلرامپوری
1 تبصرے
دل خوش ہو گیا مکمل جواب پڑھ کر
جواب دیںحذف کریںاللّٰہ آپ سے اور اہل مسائل شرعیہ سے یوں ہی دین کی خدمت لے آمین ثم آمین