سوال نمبر 1710
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان عظام مسئلہ ذیل کے بارے میں، ہندہ نے کہا کہ خدا جھوٹا ہے معاذ اللہ بعد میں ہندہ کی شادی ہوگئی شادی کے دو سال بعد یہ معلوم ہوا کہ ہندہ نے اس طرح الفاظ کہے ہیں اور دو سال تک وہ روتی رہی کہ میں نے ایسا کہہ دیا جب اسکے شوہر نے اس سے رونے کا سبب پوچھا تو بہت اصرار کے بعد اس نے بتایا کہ میں نے اس طرح کہا ہے تو ہندہ کے بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے؟
(ریاض احمد، میڑکڈیھ مہدیہ بلرام پور)
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
باسمہ تعالیٰ وتقدس الجواب:
صُورتِ مسئولہ میں ہندہ نے اللہ عزوجل کو جھوٹا قرار دے کر صریح کفر کا ارتکاب کیا ہے، لہٰذا وہ دائرہ اسلام سے نکل کر مرتدہ ہوگئی ہے، یاد رہے کہ اللہ عزوجل کا جھوٹ بولنا ناممکن و محال ہے، کیونکہ جھوٹ عیب ہے اور ہر عیب اللہ عزوجل کیلئے محال ہے، وہ جملہ عیوب سے پاک ہے، اور اُس سے زیادہ سچا کوئی نہیں ہے۔
چنانچہ قرآن کریم میں ہے: "وَ مَنْ اَصْدَقُ مِنَ اللّٰهِ قِیْلًا"
(النساء:122/4)
ترجمہ کنز الایمان: اور اللہ سے زیادہ کس کی بات سچی۔
ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا: "وَ مَنْ اَصْدَقُ مِنَ اللّٰهِ حَدِیْثًا" (النساء:87/4)
ترجمہ کنز الایمان: اور اللہ سے زیادہ کس کی بات سچی۔
اس آیت کے تحت علّامہ ابو سعید عبد اللہ بن عمر بیضاوی متوفی 685ھ اور علّامہ اسماعیل حقی حنفی متوفی1127ھ لکھتے ہیں: "(ومن اصدق من اللہ حدیثاً) انکار ان یکون احد اکثر صدقاً منہ، فانہ لا یتطرق الکذب الی خبرہ بوجہ لانہ نقص وھو علی اللہ محال"
(تفسیر البیضاوی،482/1)
(تفسیر روح البیان،202/2)
یعنی اللہ تعالیٰ اس آیت میں انکار فرماتا ہے کہ کوئی شخص اللہ سے زیادہ سچا ہو، اس کی خبر میں تو جھوٹ کا کوئی شائبہ تک نہیں ہے، اس لئے کہ جھوٹ عیب ہے اور عیب اللہ تعالیٰ کیلئے محال ہے۔
اور اللہ تعالیٰ کو جھوٹا کہنا تو دُور کی بات، بلکہ اُس پر فقط جھوٹ کا گمان کرنے والا شخص بھی مسلمان نہیں رہتا ہے۔
چنانچہ امام فخر الدین محمد بن عمر رازی متوفی606ھ لکھتے ہیں: "المؤمن لا یجوز ان یظن باللہ الکذب، بل یخرج بذلک عن الایمان"
(التفسیر الکبیر،181/18)
یعنی،مومن کیلئے جائز نہیں کہ وہ اللہ عزوجل پر جھوٹ کا گمان کرے، بلکہ وہ ایمان سے نکل جائے گا۔
لہٰذا ثابت ہوا کہ ہندہ اپنے قول بدتر از بول کے سبب مرتدہ ہوگئی ہے، پس اگر ہندہ کا نکاح اسی حالتِ ارتداد میں ہوا تھا، یعنی بغیر توبہ وتجدیدِ ایمان کئے، تو اُس کا نکاح سرے سے منعقد ہی نہ ہوا، پس وہ نکاح باطل ہے، کیونکہ مرتدہ کا نکاح کسی سے نہیں ہوسکتا ہے، حتی کہ مرتد سے بھی۔
چنانچہ علّامہ حسن بن منصور اُوزجندی حنفی متوفی592ھ لکھتے ہیں: ولا یجوز نکاح المرتدۃ لاحد
(فتاوی قضیخان علی ھامش الھندیۃ،کتاب النکاح،باب فی المحرمات،365/1)
یعنی،مرتدہ کا نکاح کسی سے نہیں ہوسکتا ہے۔
اور صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی حنفی متوفی1367ھ لکھتے ہیں:* مرتد و مرتدہ کا نکاح کسی سے نہیں ہوسکتا، اگرچہ مرد و عورت دونوں ایک ہی مذہب کے ہوں۔ (بہارِ شریعت،محرمات کا بیان،حصہ ہفتم،31/2)
اور حالتِ ارتداد میں ہونے والے نکاح کا حکم بیان کرتے ہوئے امامِ اہلسنت امام احمد رضا خان حنفی متوفی1340ھ لکھتے ہیں: معاذ اللہ اگر مرد یا عورت نے پیش از نکاح کفرِ صریح کا ارتکاب کیا تھا اور بے توبہ واسلام ان کا نکاح کیا گیا تو قطعاً نکاح باطل، اور اس سے جو اولاد ہوگی ولد الزنا۔
(فتاوی رضویہ،کتاب النکاح،153/11)
اور اگر ہندہ نے نکاح سے پہلے توبہ اور تجدیدِ ایمان کرلیا تھا، تو اُس کا نکاح منعقد ہوگیا ہے۔
اور یہ بھی واضح رہے کہ بعض جگہوں میں نکاح سے پہلے دولہا اور دلہن کو توبہ کرواتے ہیں، اور کلمہ پڑھواتے ہیں، لیکن کیا اس توبہ کروانے اور پھر کلمہ شریف پڑھوانے سے مرتد شخص پھر سے مسلمان ہوجائے گا یا نہیں؟ اس میں کچھ تفصیل ہے، اور وہ یہ ہے کہ اگر کسی سے کفر سرزد ہوجائے، اور اُسے یہ معلوم ہوجائے کہ مجھ سے کفر صادر ہوگیا ہے، جس کے سبب میں مسلمان نہ رہا، تو اُس کی توبہ اُسی وقت مقبول ہوگی، جب وہ اُس کفر کو کفر مانتا ہو، اور دل میں اُس کفر سے نفرت وبیزاری بھی ہو، مزید یہ کہ جو کفر سرزد ہوا ہو، اُس کا توبہ میں تذکرہ بھی ہو، مثلاً جس نے اللہ عزوجل کو جھوٹا کہا ہو، وہ اس طرح کہے کہ یا اللہ عزوجل میں نے جو تجھے جھوٹا کہا ہے، اِس کفر سے توبہ کرتا ہوں، پھر وہ کلمہ طیبہ پڑھ لے، اس طرح مخصوص کفر سے توبہ بھی ہوجائے گی اور تجدیدِ ایمان بھی، لیکن اگر کسی کو معلوم ہی نہ ہو کہ مجھ سے کفر سرزد ہوگیا ہے، جس کی وجہ سے میں مرتد ہوچکا ہوں، اور ایسا ہوتا ہے کہ معلوم ہی نہیں ہوتا، تو اُس کے پھر سے مسلمان ہونے کیلئے یہ طریقہ کافی ہوگا کہ وہ یہ کہے کہ یا اللہ عزوجل اگر مجھ سے آج تک کوئی کفر سرزد ہوگیا ہو، تو میں اُس سے توبہ کرتا ہوں، اور اس کے بعد وہ کلمہ پڑھ لے۔
چنانچہ علمائے اہلسنت کی مصدّقہ کتاب بنام "کفریہ کلمات کے بارے میں سوال جواب" میں ہے: جس کفر سے توبہ مقصود ہے وہ اُسی وقت مقبول ہوگی جبکہ وہ اُس کفر کو کفر تسلیم کرتا ہو اور دل میں اُس کفر سے نفرت وبیزاری بھی ہو، جو کفر سرزد ہوا توبہ میں اُس کا تذکرہ بھی ہو۔مثلاً جس نے ویزا فارم پر اپنے آپ کو کرسچین لکھ دیا وہ اس طرح کہے: یا اللہ عزوجل میں نے جو ویزا فارم میں اپنے آپ کو کرسچین ظاہر کیا ہے اِس کفر سے توبہ کرتا ہوں، لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم (اللہ عزوجل کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم اللہ عزوجل کے رسول ہیں) اِس طرح مخصوص کفر سے توبہ بھی ہوگئی اور تجدیدِ ایمان بھی۔
اگر یہ معلوم ہی نہیں کہ کفر بکا بھی ہے یا نہیں تب بھی اگر احتیاطاً توبہ کرنا چاہیں تو اسطرح کہئے:یا اللہ عزوجل اگر مجھ سے کوئی کفر ہوگیا ہو تو میں اُس سے توبہ کرتا ہوں، یہ کہنے کے بعد کلمہ پڑھ لیجئے۔ (کفریہ کلمات کے بارے میں سوال جواب،ص621۔622)
پس اس تفصیل کی روشنی میں اگر ہندہ کو نکاح سے پہلے معلوم تھا کہ میں اللہ عزوجل کو جھوٹا کہنے کی وجہ سے مرتدہ ہوگئی ہوں، تو اُس کیلئے تجدیدِ ایمان کا وہی طریقہ تھا جو اوپر پہلی صورت میں بیان کیا گیا ہے، لہٰذا ہندہ نے اگر نکاح سے پہلے اُس طریقے سے توبہ کرکے کلمہ شریف پڑھ لیا تھا، تو وہ بلاشبہ اُسی وقت مسلمان ہوگئی تھی، اور پھر نکاح ہونے کی صورت میں وہ بھی منعقد ہوگیا ہے ورنہ نہیں، لیکن اگر اُسے وہ جملہ کہنا معلوم تو تھا لیکن اُسے یہ معلوم نہ تھا کہ میں اُن الفاظ کو کہنے کے سبب مذہبِ اسلام سے خارج ہوکر مرتدہ ہوگئی ہوں، تو اُس کے پھر سے مسلمان ہونے کیلئے اوپر دوسری صورت میں بیان کردہ طریقہ کو اپنانا تجدیدِ ایمان کیلئے کافی تھا، لہٰذا اس صورت میں اگر ہندہ نے اُس طریقے سے توبہ کرکے کلمہ طیبہ پڑھ لیا تھا، جب بھی وہ مسلمان ہوگئی تھی، پھر اگر اُس کا نکاح ہوا تھا، تو وہ بھی منعقد ہوگیا ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ مذکورہ جملہ کہنے کے سبب ہندہ مرتدہ ہوگئی ہے، پس اگر اُس کا نکاح اسی حالتِ ارتداد میں ہوا تھا، تو وہ باطل ہے، پس اس صورت میں اگر ہندہ اور وہ شخص جس کے ساتھ اُس کا نکاح ہوا ہے، پھر سے ساتھ رہنا چاہتے ہیں، تو اب نئے سرے سے نکاح کرنا ہوگا، جبکہ ہندہ اب مسلمان ہوگئی ہو، کیونکہ مرتدہ کا نکاح کسی سے نہیں ہوسکتا ہے، جیسا کہ اوپر گزرا، اور اگر ہندہ نے نکاح سے پہلے توبہ اور تجدیدِ نکاح کرلیا تھا، تو اُس کا نکاح منعقد ہوگیا ہے، مزید یہ کہ ہندہ نے اگر اب تک توبہ اور تجدیدِ ایمان ہی نہیں کیا ہے، تو اُس پر لازم ہے کہ وہ جلد درست طریقے کار کے مطابق توبہ کرے اور کلمہ طیبہ پڑھ کر پھر سے مسلمان ہوجائے، اور وہ نیک اعمال کرے، کہ اس پر بشارت وارد ہے۔چنانچہ قرآن کریم میں ہے:مَنْ تَابَ وَ اٰمَنَ وَ عَمِلَ صَالِحًا فَاُولٰٓىٕكَ یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ وَ لَا یُظْلَمُوْنَ شَیْــئًا۔ *(مریم:60/19)*
ترجمہ کنز الایمان:جو تائب ہوئے اور ایمان لائے اور اچھے کام کئے تو یہ لوگ جنت میں جائیں گے اور انہیں کچھ نقصان نہ دیا جائے گا۔
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
کتبہ: محمد اُسامہ قادری
متخصص فی الفقہ الاسلامی
پاکستان،کراچی
15،ذوالحجہ1442ھ۔26،جولائی2021ء
0 تبصرے