سوال نمبر 1721
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ. سوال کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس سوال کے جواب میں کہ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو سیف اللہ لقب کس وجہ سے دیا گیا تھا. کچھ تفصیل بتائیں۔
المستفتی: محمد بلال رضا امانتی پیلی بھیت شریف
وَعَلَيْكُم السَّلَام وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ
الجواب بعون اللہ و رسولہ
جنگ موتہ کے موقع پر نبی کریم ﷺ نے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی بہادری کی وجہ آپ کو سیف اللہ کا لقب عطا فرمایا
جیسا کہ حدیث شریف میں ہے:
"عن انس أنّ النبيّ ، نَعَى زَيْدًا، وجَعْفَرًا، وابْنَ رَوَاحَةَ لِلنّاسِ، قَبْلَ أنْ يَأْتِيَهُمْ خَبَرُهُمْ، فَقالَ أخَذَ الرّايَةَ زَيْدٌ، فَأُصِيبَ، ثُمّ أخَذَ جَعْفَرٌ فَأُصِيبَ، ثُمّ أخَذَ ابنُ رَوَاحَةَ فَأُصِيبَ، وعَيْنَاهُ تَذْرِفَانِ حتّى أخَذَ سَيْفٌ مِن سُيُوفِ اللّهِ حتّى فَتَحَ اللّهُ عليهم"
(صحیح البخاری ، کتاب المغازی ، المجلدالثانی ، ص ٦١١، مجلس برکات مبارکپور)
وھکذا فی مشکوة المصابیح ، ٥٣٣ (ایضا)
مشکوٰۃ کے اسی صفحہ پر حاشیہ نمبر ٧ میں ہے:۔ "سیف من سیوف اللہ ،،، شجیع من شجعانہ فانہ کان یعد الفاد انقطع فی یدہ یومٸذ ثمانیة اسیاف والاضافة للتشریف وقولہ یعنی خالد بن الولید تفسیر من کلام انس او من بعدہ و المعنیٰ یریدالنبیﷺ بالوصف السابق خالدبن ولید"
اس جنگ کی مختصر تفصیل یوں ہے : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حارث بن عمیر رضی اللہ تعالی عنہ کو بصرہ کے حاکم کے پاس بھیجا تھا جنہیں شام کے ایک حاکم شرجیل بن عمر وغسانی نے شہید کردیا تھا ان کے علاوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اور کوٸی قاصد کو کہیں شہید نہیں کیا گیا ان متمر دین کی سر کوبی کے لیے آٹھ ہجری کے جمادی الاولیٰ میں تین ہزار مجاہدین کا ایک لشکر ترتیب دیا جن پر امیر حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالی عنہ کو بنایا اور فرمایا اگر زید شہید ہو جائیں تو جعفر جھنڈا اٹھا لیں گے اور اگر وہ شہید ہو جائیں تو حضرت عبداللہ بن رواحہ جھنڈا لینگے یہ لشکر موتہ تک گیا یہ بیت المقدس سے دو منزل کے فاصلے پر بلقا کے قریب ہے رومی ایک لاکھ سے زیادہ فوج لے کر مقابلہ پرآئے خود حرقل ایک لاکھ کی فوج لے کر پڑاؤ ڈالے ہوئے تھا سخت خوں ریز جنگ ہوئی حضرت زید شہید ہوگئے تو حضرت جعفر بن ابی طالب نے جھنڈا لیا وہ بھی شہید ہو گئے تو حضرت عبداللہ بن رواحہ نے جھنڈا لیا یہ بھی شہید ہو گئے تو حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالی عنہ نے جھنڈا لیا اس وقت مسلمان منتشر ہو چکے تھے انہوں نے بہت پامردی اور تدبیر سے کام لے کر مسلمانوں کو اکھٹا کیا ترتیب بدل دی میمنہ کو میسرہ پر اور میسرہ کو میمنہ پر اور ساقہ کو مقدمہ پر اور مقدمہ کو ساقہ پر کر دیا اس سے رومیوں نے یہ سمجھا کہ مسلمانوں کے لئے مدد آچکی ہے مسلمانوں کو اکھٹا کرکے حضرت خالد نے پوری قوت سے رومیوں پر حملہ کر دیا حضرت خالد اس جوش سے لڑے اس دن ان کے ہاتھ سے نو تلواریں ٹوٹیں جس کے نتیجے میں رومیوں کو میدان چھوڑ کر بھاگنا پڑا حضرت خالد بن ولید نے اتنے ہی کو غنیمت جانا بچے کچے مسلمانوں کو لے کر مدینہ واپس ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے میدان جنگ کا پورا نقشہ تھا حضرت زید و جعفر و عبداللہ رضی اللہ عنھم کی شہادت کی خبریں دی اور فرمایا پھر اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار نے جھنڈا لیا یعنی حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالی عنہ نے جھنڈا لیا اللہ نے ان کے ہاتھ پر فتح عطا فرمائی۔
(نزھة القاری فی شرح صحیح البخاری ، جلد ٧ ص ٣٤٣تا٣٤٤)
واللہ و رسولہ اعلم
کتبہ: عبیداللہ حنفی بریلوی
0 تبصرے