آپ قوم کی بہتری کے لئے کچھ ہدیہ کریں کلک کریں

‎عمامہ کا شملہ کس کندھے پر رکھنا چاہئے؟ ‏

                 سوال نمبر 1738


اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكاتُهُ‎

علماۓ کرام کی بارگاہ میں عرض ہے کہ عمامہ کا شملہ کس کندھے پر رکھنا چاہیۓ جواب عطافرماکر شکریہ کا موقع دیں۔

المستفتی :محمد احمد رضا بنگال


وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب بعون الملک الوھاب

عمامہ کا شملہ لٹکانے کے  متعلق چند اقوال ہیں جو کہ مندرجہ ذیل ہیں!


 بہارشریعت میں ہے: بیہقی نے شعب الایمان میں عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ عمامہ باندھنا اختیار کرو کہ یہ فرشتوں کا نشان ہے اور اس کو پیٹھ کے پیچھے لٹکاٶ ۔


نیز ترمذی نے ابن عمر رضی اللہ تعالی عنھما سے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ عمامہ باندھتے تودونوں شانوں کے درمیان شملہ لٹکاتے 

(ج٣،ص٤٠٣/٤٠٤،مکتبة المدینة دھلی)


حضرت علامہ سید محمد بن جعفر کتانی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:* بائیں طرف شملہ لٹکانا اکثر سادات صوفیا کا طریقہ رہا  ہے: 

"واماارسال الصوفیة لھا علی الایسر لکونہ جانب القلب فیتذکر تفریغہ مماسوی ربہ فھو شٸ استحسنوہ" صوفیائے کرام بائیں جانب شملہ لٹکانے کو مستحسن قرار دیتے ہیں کیونکہ یہ دل کی جانب ہے اور (بائیں جانب شملہ رکھنا) اس بات کی یاد دلاتا رہتا ہے کہ دل کوما سوی  اللہ  (یعنی  اللہ  عزوجل کی یاد کے سوا ہر چیز ) سے خالی رکھنا ہے ۔ 

 نیز چند سطر کے بعد ہے: 

"عن عبداللہ  بن بسروسٸل الحافظ ابن حجرعن مستند الصوفیة فی ارخاٸھا علی الشمال فاجاب بمانصہ واما مستند الصوفیة فی ارخا ٕ العذبة علی الشمال فلا یلزمھم بیانہ لان ھذا من جملة الامور المباحة فمن اصمللح علی شٸ منھا لم یمنع منہ ولاسیما اذاکانت شعارالھم" ( الدعامہ فی احکام سنۃ العمامۃ ، ص ٥٦/٥٥)


نیز نبی کریم ﷺ جب بھی کسی صحابی رضی اللہ تعالی عنہ کو کسی علاقے کا والی (حاکم) بناتے تو اپنے مبارک ہاتھوں سے انہیں عمامہ شریف اس طرح باندھتے کہ اس کا شملہ دائیں جانب ہوتا۔

"عن ابی امامة  قال کان رسول اللہ ﷺ لایولی والیا حتی یعممہ ویرخی لھا عذبة من جانب الایمن نحوالاذن"* 

ترجمہ : حضرت ابو امامہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ  جب بھی کسی کو والی بنا کر بھیجتے تو انہیں عمامہ شریف باندھتے اور اس کا شملہ داہنی طرف کان کی جانب لٹکاتے۔

(معجم کبیر، ج ۸،ص ۱۴۴، )

اور کبھی نبی ﷺکے عمامہ شریف کے دوشملے ہوتے اور دونوں پشت اقدس پر لٹک رہے ہوتے۔

جیساکہ مسلم شریف،ج١،ص٤٤٠ پر  ہے۔


اور کبھی عمامہ کے دوشملوں میں سے ایک سامنے اور دوسرا پشت اطہر پر ہوا کرتا تھا جیسا کہ مجمع الزواٸد ،ج ٥ ،١٢٠، پر مذکور ہے۔


مزید یہ بھی جان لیں کہ عمامے کا شملہ کہاں تک رکھنا مسنون ہے؟


سیدی سرکار اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان قدس سرہ  ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں: شملے کی اقل مقدار چار انگشت ہے اور زیادہ سے زیادہ ایک ہاتھ اور بعض نے نشست گاہ تک رخصت دی یعنی اس قدر کہ بیٹھنے سے موضع جلوس تک پہنچے اور زیادہ راجح یہی ہے کہ نصف پشت سے زیادہ نہ ہو جس کی مقدار تقریبا وہی ایک ہاتھ ہے۔  حد سے زیادہ داخل اسراف ہے۔  (فتاویٰ رضویہ ، ج۲۲،ص ۱۸۲،رضافاٶنڈیشن لاہور)

واللہ تعالی اعلم عزوجل ورسولہ  اعلم ﷺ ۔

کتبہ: ابو کوثر محمد ارمان علی قادری جامعی عفی عنہ۔

تخصص فی الفقہ نوری دارالافتا ٕ ،بھیونڈی۔

خادم :مدینہ مسجد مہیسار ،دربھنگہ۔

١٣/محرم الحرام١٤٤٣ھ۔

٢٣/اگست٢٠٢١ ٕ ۔۔۔




ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney