سوال نمبر 1760
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ مرحوم نے چالیس لاکھ روپے چھوڑے ہیں اور اس کے وارثین میں اس کی بیوی اور دو لڑکے اور تین لڑکیاں ہیں تو ان سب کو کتنا کتنا حصہ ملیگا؟ قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں۔المستفتی :مسعود رضا احمدآباد
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
باسمہ تعالیٰ وتقدس الجواب:
صُورتِ مسئولہ میں برتقدیرِ صدق سائل وانحصارِ ورثاء در مذکورین بعدِ اُمورِ ثلاثہ متقدمہ علی الارث(یعنی،کفن دفن کے تمام اخراجات اور اگر مرحوم کے ذمے قرض ہو تو اس کی ادائیگی اور غیرِ وارث کیلئے وصیت کی ہو، تو تہائی ۱/۳ مال سے اُسے پورا کرنے کے بعد) مرحوم کی مکمل جائیداد آٹھ حصوں پر تقسیم ہوگی، جس میں سے بیوہ کو ایک حصہ ملے گا، کیونکہ میت کی اولاد ہونے کی صورت میں بیوہ کا آٹھواں حصہ ہوتا ہے۔
چنانچہ قرآن کریم میں ہے:فَاِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ۔(النساء:۱۲/۴)
ترجمہ کنز الایمان: پھر اگر تمہارے اولاد ہو تو ان کا تمہارے ترکہ میں سے آٹھواں۔
اور بقیہ سات حصے مرحوم کے بیٹوں اور بیٹیوں میں تقسیم ہوں گے، اور وہ اس طرح کہ ہر ایک بیٹے کو دو دو حصے ملیں گے جبکہ ہر ایک بیٹی کو ایک ایک حصہ ملے گا، کیونکہ بیٹے کا حصہ بیٹی کے مقابلے میں دُگنا ہوتا ہے۔چنانچہ قرآن کریم میں ہے:
یُوْصِیْكُمُ اللّٰهُ فِیْۤ اَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ۔(النساء:۱۱/۴)
ترجمہ کنز الایمان: اللہ تمہیں حکم دیتا ہے تمہاری اولاد کے بارے میں بیٹے کا حصہ دو بیٹیوں برابر۔
لہٰذا مرحوم کے وارثین میں اگر چالیس لاکھ روپے تقسیم کرنے ہیں، تو اس صورت میں بیوہ کو پانچ لاکھ روپے ملیں گے، اور بقیہ پینتیس لاکھ میں سے ہر ایک بیٹے کو دس دس لاکھ جبکہ ہر ایک بیٹی کو پانچ پانچ لاکھ روپے ملیں گے۔
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
کتبہ:محمد اُسامہ قادری
متخصص فی الفقہ الاسلامی
پاکستان،کراچی
18،محرم الحرام1443ھ۔27،اگست2021ء
0 تبصرے