سوال نمبر 1772
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے میں کہ زکوٰۃ اور صدقہ فطر کے نصاب میں کیا فرق ہے؟
المستفتی :- محمد نوشاد عالم
الجواب بعون الملک الوھاب
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
زکوٰۃ کے نصاب میں مال کا نامی ہونا شرط ہے یعنی ساڑھے سات تولہ سونا یا ساڑھے باون تولہ چاندی یا ان میں سے کسی ایک کی قیمت کا سامان تجارت یا روپیہ کا حاجت اصلیہ سے زائد ہونا ضروری ہے
اور وجوب زکوٰۃ کے لیے صاحب نصاب کا عاقل و بالغ ہونا بھی شرط ہے
اور صدقہ فطرہ کی نصاب میں مال کا نامی ہونا شرط نہیں
یعنی اگر کسی کے پاس سونا چاندی کا نصاب نہ ہو اور نہ ان میں سے کسی ایک کی قیمت کا سامان تجارت و روپیہ ہو مگر حاجت اصلیہ کے زائد سامان غیر تجارت ہو تو صدقہ فطر واجب ہو جائے گا
مثلاً کسی کے پاس تانبہ، پیتل، کے برتن ہوں مگر تجارت کے لیے نہ ہو اور حاجت اصلیہ سے زائد ہوں اور ان کی قیمت سونا یا چاندی کے نصاب کے برابر ہو تو ان برتنوں کے سبب صدقہ فطر واجب ہو جاۓ گا مگر زکوٰۃ واجب نہ ہوگی
اور صدقہ فطرہ میں صاحب نصاب کا عاقل وبالغ ہونا شرط نہیں
فتاوی فیض الرسول جلد اول ص ٥٠٦
صدقہ فطر کا بیان
واللہ تعالی اعلم بالصواب
کتبه محمد عسجد رضا نظامی پورنوی عفی عنہ مقام نعمت پور بائسی پورنیہ بہار الھند
0 تبصرے