آپ قوم کی بہتری کے لئے کچھ ہدیہ کریں کلک کریں

عام قبرستان ‏میں ‏قبر ‏پر ‏نام کا ‏بورڈ ‏لگوانا ‏کیسا؟ ‏

          سوال نمبر 1820

السلام علیکم ورحمةاللہ وبرکاتہ 

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل میں کہ زید کا انتقال ہو گیا اور اسے مومنین کے عام قبرستان میں دفن کر دیا گیا شرعی طور پر تدفین کر دینے کے بعد اب اس کے وارثین قبر کی حد بندی کراکے اس کے نام کا کتبہ لگانا چاہتے ہیں، اسی قبرستان میں دوسرے متعدد لوگوں کی قبروں پر ایسا کیا جاچکا ہے اور کتبوں کے ساتھ وہ قبریں  اب بھی موجود ہیں سوال یہ ہے کہ:

زید کے وارثین کا یہ عمل جائز ہے یا ناجائز؟

زيد کے آباء و اجداد کی قبریں اسی قبرستان میں ہیں لیکن ایک مدت گزر جانےکی وجہ سے قبروں کی نشاندہی کرنے والا اب کوئی نہیں تو کیا نشاندہی کے لئے بھی کتبہ نہیں لگایا جا سکتا؟

دوسری قبروں اوراس کے وارثین کاشرعی حکم کیاہے؟

جواب عنایت فرما کر عنداللہ ماجورہوں

ملتمس یکےازبندگان خدا براؤں شریف


وعلیکم السلام ورحمةاللہ وبرکاتہ 

الجواب۔بعون الملک الوھاب  ۔ 

زید کے وارثین کا یہ عمل ضرورتاً جائز ہے جب کہ بے حرمتی نہ ہو صالحین کی قبروں کو پختہ کرنا اور اس پر کتبہ لگانا بہتر ہے اور یہ ضرورت کے پیش نظر ہے تاکہ اللہ کے مقرب بندوں کی قبروں کے نشان باقی رہیں اور وقفی قبرستان میں عامۀ مومنین کی قبر پرکتبہ لگانے کی اجازت نہیں ہوگی کیونکہ قبرستان میں جگہ ختم ہونے کے بعد پرانی قبروں کو دوبارہ کھول کر قبریں بنائی جاتی ہیں اور اگر ہرکسی کے قبر پر کتبہ وغیرہ لگا دیا جائے گا تو دوبارہ اسی جگہ پر قبر بنانے میں دشواریاں ہوں گی دور حاضر میں بعض جگہوں پر کفار و مشرکین اور بعض دنیا دار نام نہاد مسلمان کچھ پرانی قبرستانوں پر قبضہ کررہے ہیں جہاں کہ قبریں خام ہوجاتی ہیں اور قبروں کے نام ونشان باقی نہیں رہتے ۔ اس لیے ہرقبرستان میں کچھ قبروں کے سرہانے کتبہ نصب کرنا جائز ہے بلکہ بہتر ہے اور یہ بھی ضرورت کے تحت ہے تاکہ کفار ومشرکین ونام نہاد مسلمانوں کی شر سے مومنین کی قبریں محفوظ رہیں خیال رہے جائز کی صورت فقط ضرورت کے پیش نظرہے اور اس قید کے ساتھ کی بے حرمتی اور بے ادبی نہ ہو

اگر زید عالم ہو متقی ہو اللہ کا محبوب بندہ ہو یا مسئولہ قبرستان میں کفار ومشرکین ونام نہاد مسلمانوں سے برائی کا اندیشہ ہو توزید کے وارثین کایہ عمل جائز ہوگا ورنہ نہیں

بحرالعلوم علامہ مفتی عبدالمنان  اعظمی علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں  ،، ضرورت کے وقت قبر پر کتبہ لگانا جائز ہے ۔ لیکن ایسی جگہ نہ ہونا چاہیۓ کہ تحریر کی بے حرمتی ہو ۔ 

درمختار میں ہے  ،، لاباس بالکتابة ان احتیج الیھا کی لایذھب الاثر ولایمتھن ،، 


فتاوی بحرالعلوم جلددوم صفحہ  ٣٧ کتاب الجنائز مطبوعہ امام احمدرضا اکیڈمی بریلی شریف 


فقیہ اعظم حضور صدرالشریعہ بدرالطریقہ علامہ مفتی محمدامجدعلی اعظمی علیہ الرحمة والرضوان تحریر فرماتےہیں  ،، 


اگر ضرورت ہو تو قبر پر نشان کے لیے کچھ لکھ سکتے ہیں ، مگر ایسی جگہ نہ لکھیں  کہ بے ادبی ہو، ایسے مقبرہ میں  دفن کرنا بہتر ہے جہاں  صالحین کی قبریں ہوں ۔ 


بہارشریعت جلداول حصہ چہارم صفحہ ٨٥١   المکتبة المدینة دعوت اسلامی ۔

وھوسبحانہ تعالی اعلم بالصواب 

                 کتبہ 

العبد ابوالفیضان محمد عتیق الله صدیقی فیضی یارعلوی ارشدی عفی عنہ

دارالعلوم اھلسنت محی الاسلام 

بتھریاکلاں ڈومریاگنج سدھارتھ نگر یوپی .

*المتوطن :۔* کھڑریابزرگ پھلواپور گورابازار سدھارتھنگر یوپی ۔

٢١     صفرالمظفر        ١٤٤٣ھ

٢٩     ستمبر               ٢٠٢١ء




ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney