سوال نمبر 1891
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ کیا فرماتے ہیں علمائے کرام کہ زید کا باپ دو شادی کیا ہے اور اس کی ایک بیوی انتقال ہوگئ اور اس کے شکم سے ایک بیٹا ہے اور وہ بیٹا اپنے باپ کو مارتا ہے تو اس کے پیچھے نماز ہوگی یا نہیں ؟
قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں
المستفتی محمد حبیب رضا قادری
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بعون الملک الوھاب
جو شخص اپنے ماں باپ کو مارے ایسے شخص کے پیچھے نماز پڑھنا جائز نہیں۔
اللہ تعالی کا ارشاد عالی شان ہے " فَلاَ تَقُل لَّھُمَا أُفٍّ وَلاَ تَنْھَرْھُمَا وَقُل لَّھُمَا قَوْلاً کَرِیْما "ھ١
یعنی ماں باپ کو اف تک نہ کہنا اور انھیں نہ جھڑکنا اور ان سے تعظیم کی بات کہنا
(سورة الاسرار آیت ٢٣) اور اس آیت کی تفسیر میں تفسیر صدر الافاضل حضرت علامہ ومولانا مفتی سید محمد نعیم الدین مرادآبادی علیہ رحمۃ الھادی لکھتے ہیں کہ یعنی ایسا کوئی کلمہ زبان سے نہ نکلنا جس سے یہ سمجھا جائے کہ ان کی طرف سے طبیعت پر گرانی بوجھ ہے۔ اور حسن ادب کے ساتھ ان سے خطاب کرنا ۔ مسئلہ ماں باپ سے اس طرح کلام کرے جیسے غلام و خادم آقا سے کرتا ہے۔
(خزائن العرفان صفحہ ٥٢٩،٥٣٠) اور حدیث پاک میں ہے " من اصبح عاصیا للہ فی والدیه اصبح له بابان مفتوحان من النار ان کان واحدا فواحدا قال رجل وان ظلماہ قال وان ظلماہ وان ظلماہ "ھ١ یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے اس حال میں صبح کی کہ والدین کے بارے میں خدائے تعالی کا نافرمان بندہ رہا تو اس کے لئے صبح ہی کو جہنم کے دروازے کھل جاتے ہیں اور ایک ہوتو ایک دروازہ کھکتا ہے۔ ایک شخص نے کہا اگرچہ ماں باپ اس پر ظلم کریں۔ حضور نے فرمایا اگرچہ ظلم کریں اگرچہ ظلم کریں اگرچہ ظلم کریں
(مشکوة شریف صفحہ ٤٢١) (فتاوی فقیہ ملت جلد اول صفحہ ١١٧) اگر واقعی امام میں مذکورہ بات پائی جاتی ہے تو ایسے امام کے پیچھے نماز پڑھنا جائز نہیں پڑھ لی ہوں تو پھیرنی واجب۔
واللہ تعالی اعلم بالصواب
کتبہ
محمد مدثر جاوید رضوی
مقام۔ دھانگڑھا، بہادر گنج
ضلع۔ کشن گنج، بہار
0 تبصرے