آپ قوم کی بہتری کے لئے کچھ ہدیہ کریں کلک کریں

قرآن کریم میں یاد داشت کے لیے نشان لگانا کیسا؟

سوال نمبر 1953

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں جو حافظ صاحب قرآن شریف میں قلم سے نشان لگاتے ہیں کیا وہ درست ہے؟ 

سائل احمد رضا اتر پردیش




وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاتہ

بسم الله الرحمن الرحیم

الجواب بعون الملک الوھاب 

قرآن شریف کے حاشیہ پر قلم سے نشان لگانا جائز ہے جب کہ قرآن اپنا ہو ورنہ  دوسرے کا ہو تو اس کی رضا سے جائز ہے، ہاں قرآن پاک کی عبارت پر قلم وغیرہ سے نشان بنانا اور لکھنا ادب کے خلاف ہے، 

جیسا کہ فتاویٰ مرکز تربیت افتاء جلد دوم صفحہ ٤٧٩ پر ہے-  

قرآن کریم کے حاشیہ پر قلم وغیرہ سے نشان بنانا اور یاد داشت کے لئے تاریخ ڈالنا شرعاً جائز ہے اس میں کوئی قباحت نہیں جبکہ قرآن اپنا ہو اور اگر دوسرے کا ہو تو اس کی رضا سے جائز ہے ہاں قرآن پاک کی عبارت پر قلم وغیرہ سے نشان بنانا اور لکھنا ادب کے خلاف ہے فتاوی حدیثیہ میں ہے کہ " لا يحشيه شيئا فى مغاضن فواتحه و خواتمه الا اذا علم رضا صاحبه ولا يسوده لغير ضرورة حيث يجوز شرعا ولا يمر بالقلم الممدود الحبر فوق كتابته " اھ یعنی قرآن کے ابتداء اور انتہا میں کچھ بھی حاشیہ نہ لکھے مگر جبکہ صاحب کتاب کی رضا جان لے اور نہ ہی شرعا جائز ہونے کی بنا پر بلا ضرورت اس کا مسودہ بنائے اور نہ ہی اس کی کتابت پر قلم چلائے ۔ لہذا اساتذہ جو اسباق کی یاد داشت کے لئے نیز طالب علم کے مغالطے سے بچنے کے لئے اس کے نسخہ قرآن کے حاشیہ پر نشان لگا دیتے ہیں یا تاریخ وغیرہ ڈال دیتے ہیں یہ ضرورت کے پیش نظر شرعاً جائز ہے خلاف ادب نہیں اس لئے کہ مدرسین کا طالب علم کے نسخہ قرآن پر نشان لگانا اس کی رضا ہی سے ہوتا ہے البتہ اگر پنسل سے نشان لگائیں تو بہتر ہے ، 

واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب

کتبہ

فقیر محمد معصوم رضا نوریؔ عفی عنہ

۷ جمادی الاخریٰ ۱۴۴۳ ھجری




ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney