دونوں خطبوں کے درمیان کیوں بیٹھاجاتاہے؟

سوال نمبر 1963

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام ومفتیان عظام مسئلہ ہذا میںکہ دونوں خطبوں کے در میان کیوں بیٹھا جاتا ہے؟ اس کی حکمت کیا ہے؟اور کتنی دیر بیٹھنا چاہئے؟ نیز یہ بھی بتائیں کہ دونوں خطبوں کے درمیان دعا کرنا کیسا ہے؟ بینواتوجروا 

المستفتی حافظ و قاری محمد علی مرادآباد



وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب بعون الملک الوہاب

جمعہ وعیدین کے دونوں خطبوں کے درمیان تین آیت کی مقدار بیٹھنا سنت ہے ارشاد الساری شرح صحیح البخاری شریف کی عبارت سے پتہ چلتا ہے کہ اس جلسے میں سورۂ اخلاص کے برابر آیتیں پڑھی جائیں محدثین کرام نے دونوں خطبوں کے درمیان بیٹھنے کی حکمت یہ بتائی ہے کہ انکے درمیان فرق و امتیاز پیدا ہوجائے اور پہلے خطبے کا دوسرے خطبے سے التباس باقی نہ رہے اور بعض محدثین کرام نے راحت و آرام کو بھی ذکر فرمایا ہے


  فتاویٰ عالمگیری میں ہے


 والخامس عشر الجلوس بین الخطبتین ھکذا فی البحر الرائق و مقدار الجلوس بینھما مقدار ثلاث آیات فی ظاھر الروایة ھکذا فی السراج الوھاج اھ


(جلد اول صفحہ ۱۴۷)


ارشاد الساری شرح صحیح البخاری شریف میں ہے


 ولم یشترط الحنفیة والمالکیة والحنابلة ھذہ القعدۃ انما قالوا بسنیتھا للفصل بین الخطبتین و یستحب ان یکون جلوسه بینھما قدر سورۃ الاخلاص تقریبا لإتباع السلف والخلف و ان یقرأ فیه شیئا من کتاب الله للاتباع. رواہ ابن حبان اھ


 (جلد دوم صفحہ ۱۸۶)


اور فتح الباری شرح صحیح البخاری شریف میں ہے


قبل الجلسة بعینھا لیست معتبر و انما المعتبر حصول الفصل سواء حصل بجلسة او بسکتة او بکلام من غیر ما ھو فیه و صرح امام الحرمین بان الطمانیة بینھما واجبة و ھو خفیف جدا قدر قرأۃ سورۃ الاخلاص تقریبا و ذکر ابن التین ان مقدارھا کالجلسة بین السجدتین و قال الکرمانی و فی الحدیث ان خطبة الجمعة خطبتان و فیہ الجلوس بینھما لاستراحة الخطیب و نحوھا ‘‘اھ


  (جلد ششم صفحہ ۲۲۸؍بحوالہ فتاویٰ مرکز تربیت افتاء جلد اول /ص۳۲۳؍۳۲۴)

اور رہی بات دونوں خطبوں کے درمیان دعا مانگنے کی تو سیدی سرکار اعلیحضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رضی اللہ عنہ سے سوال ہوا کہ  جمعہ کے روز امام اول کا خطبہ کرکے جلسہ کرنا ہے اس جلسہ میں ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنا مذہب حنفی میں جائز ہے یا نہیں اور اگر ناجائز ہے تو کس درجہ کا مکروہ تنزیہی یا مکروہ تحریمی؟ زید درمیان خطبین کے ہاتہ اٹھا کر دعا مانگنا بدعت اور حرام بتاتا ہےیہ عقیدہ زید کا موافق شرع شریف ہے یا نہیں؟


تو آپ نے جواب میں ارشاد فرمایا 

زید کا قول باطل ہے دونوں خطبوں کے بیچ میں امام کو دعا مانگنا تو بلاتفاق جائز ہے بلکہ خود عین خطبہ میں حضور ﷺ کا مینہ کے لئے دونوں دست انور بلند فرماکر دعا مانگنا کتب صحاح میں موجود ہے مقتدیوں کے بارہ میں مذہب حنفی میں اختلاف ہے امام ابو یوسف وامام محمد رحمہ اللہ تعالی علیہما بلا شبہ ان کے لئے بھی جائز فرماتے ہیں اور امام اعظم رضی اللہ تعالی عنہ سے دو روایتیں آئیں ایک مطابق قول صاحبین کے امام کے نزدیک بھی مقتدیوں کو بین الخطبتین دعا مانگنا جائز ہے امام سغناقی نے نہایہ وامام اکمل الدین بابرتی نے عنایہ شروح ہدایہ میں فرمایا ھوالصحیح یہی صحیح ہے 


سنتھا خمسۃ عشرۃ رابعتھا التعوذ فی نفسه قبل الخطبۃ سادستھا البدایۃ بحمد الله تعالی ، الخ ملخصا

اس کی پندرہ سنتیں ہیں چوتھی یہ کہ خطبہ سے پہلے دل میں تعوذ کا پڑھنا چھٹی یہ کہ اللہ تعالی کی حمد وثنا سے ابتدا کرنا ۔ الخ  ملخصا

پھر یہ کوئی ایسا امر نہیں جس پر تشدد ضروری ہو بہ نرمی سمجھایا جائے اگر نہ مانے تو گروہ بندی و اثارت فتنہ کی حاجت نہیں والفتنۃ اکبر من القتل فتنہ قتل سے بڑا ہے



( فتاوی رضویہ شریف جلد۸؍ صفحہ۳۹۶؍۳۹۷؍ دعوت اسلامی)


بہار شریعت میں ح ۴ جمعہ کے بیان میں ہے کہ  جب امام خطبہ کے لئے ممبر پر بیٹھے تو ختم خطبہ تک مقدیوں کا جن تک آواز پہونچ رہی ہو خاموش رہ کر سننا فرض ہے اور جن تک آواز نہیں پہونچ رہی ہے ان کا خاموش رہنا واجب ہے  جس سے معلوم ہوا کہ مقدیوں کودعا مانگناجائز نہیں

والله اعلم بالصواب

     کتبہ 

محمد فرقان برکاتی امجدی

٧   جمادی الآخر   ١٤٤٣   ھ

١١   جنوری     ٢٠٢٢     ء







ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney