باپ کی جائداد بیٹا، پوتا، پوتی و بہو میں کیسے تقسیم ہوگا؟


 سوال نمبر 2014

السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ

الاستفتاء:کیا فرماتے ہیں علمائے کرام دریں مسئلہ زید مرا اس نے چارلڑکے دوبہن چھوڑا چار لڑکے   1_نصیر احمد 2_حصیر احمد 3_نثاراحمد 4_شمیم احمد دوبہن (زید مرحوم کی لڑکیاں) 1_فاطمہ 2_ہندہ. . . . .  زید کے انتقال کے کافی دنوں بعد نصیراحمد کا انتقال ہواانہوں نے ایک لڑکا چھوڑا اس لڑکا کی ایک بیوی دو لڑکا ایک لڑکی ہے یعنی نصیراحمد کے دو پوتا ایک پوتی ایک بہو ہیں.  نصیر احمد کے بعد حصیر احمد کا بھی انتقال ہوگیا انکی کوئی اولاد نہیں ہے صرف بیوی ہے . نثار احمد انکی بیوی اور تین بچے ہیں . شمیم احمد انکے بھی بیوی بچے ہیں دوبہن مثلا فاطمہ اور ہندہ ہیں . دریافت طلب امر یہ ہے کہ زید کے ترکہ سے  حصیر احمد مرحوم کی بیوی کا کتنا حصہ ہوتاہے ؟ حصیر احمد مرحوم کی بیوی اپنے پورے حصے کو شرعی اعتبار سے کیا کرسکتی  ہے؟ اور کیا حصیر احمد مرحوم کی بیوی اپنے حصے کو جسے چاہے دے سکتی ہے اورکیا نصیراحمد کے پوتوں کو بھی حصہ ملیگا ؟

بینو اوتوجروا

 المستفتی۔۔ ظہیر احمد اعظم گڑھ



وعلیکم السلام و رحمتہ اللہ و برکاتہ 

باسمہ تعالیٰ وتقدس الجواب:

صورتِ مسئولہ میں برتقدیرِ صدق سائل وانحصارِ ورثاء در مذکورین بعدِ اُمورِ ثلاثہ متقدّمہ علی الارث(یعنی،کفن دفن کے تمام اخراجات اور اگر مرحوم کے ذمے قرض ہو تو اس کی ادائیگی اور غیرِ وارث کیلئے وصیت کی ہو، تو تہائی ۱/۳ مال سے اُسے پورا کرنے کے بعد) مرحوم زید کا مکمل ترکہ چالیس(٤٠)حصوں پر تقسیم ہوگا جس میں سے نثار احمد اور شمیم احمد دونوں میں سے ہر ایک بیٹے کو دس دس حصے جبکہ فاطمہ اور ہندہ میں سے ہر ایک بیٹی کو پانچ پانچ(٥،٥) حصے، نصیر احمد کے بیٹے یعنی زید کے پوتے کو آٹھ(٨) حصے اور حصیر احمد کی بیوی یعنی زید کی بہو کو دو حصے ملیں گے اور وہ اسے وصول کرنے کے بعد جسے دینا چاہے دے سکتی ہے کہ وہ اس کی مالکہ ہے، اور مرحوم زید کے چونکہ بیٹے حیات ہیں، لہٰذا ان کی موجودگی کے سبب نصیر احمد کے پوتے اور پوتی کا وراثت میں کوئی حق نہیں ہے۔چنانچہ علامہ نظام الدین حنفی متوفی١١٦١ھ اور علمائے ہند کی ایک جماعت نے لکھا ہے:فان اجتمع اولاد الصلب واولاد الابن فان کان فی اولاد الصلب ذکر فلا شیء لاولاد الابن ذکوراً کانوا او اناثاً او مختلطین۔

(الفتاوی الھندیة،کتاب الفرائض،الباب الثانی فی ذوی الفروض،ج٦،ص٤٤٨،مطبوعة:مکتبہ رشیدیہ،کوئٹہ)

یعنی،اگر صلبی اولاد اور بیٹے کی اولاد مجتمع ہوئی تو اگر صلبی اولاد میں کوئی لڑکا موجود ہو تو بیٹے کی اولاد میں سے کسی کو کچھ نہیں ملے گا خواہ بیٹے کی اولاد مذکر ہوں یا مٶنث ہوں یا دونوں ہوں۔

واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب

کتبہ:

محمد اُسامہ قادری

پاکستان،کراچی

جمعہ،٩ رجب١٤٤٣ھ۔١١ فروری٢٠٢٢م







ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney