ایک بیٹی دو بیٹوں کے درمیان ترکہ کیسے تقسیم ہو؟


 سوال نمبر 2017

السلام علیکم ورحمةاللہ وبرکاتہ۔

الاستفتاء:کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ باپ کا انتقال ہوگیا ہے، ایک بیٹی اور دو بیٹوں کے درمیان ترکہ کے کتنے حصے کیے جائیں گے اور کس کو کتنا حصہ ملیگا؟ علمائے کرام جواب عنایت فرماکر عنداللّہ ماجور ہوں۔۔

المستفتی :وسیم رضوی ساکی ناکہ ممبئی


وعلیکم السلام و رحمتہ اللہ و برکاتہ 

باسمہ تعالیٰ وتقدس الجواب:

برتقدیرِ صدق سائل وانحصارِ ورثاء در مذکورین بعدِ اُمورِ ثلاثہ متقدّمہ علی الارث

(یعنی،کفن دفن کے تمام اخراجات اور اگر مرحوم کے ذمے قرض ہو تو اس کی ادائیگی اور غیرِ وارث کیلئے وصیت کی ہو، تو تہائی ۱/۳ مال سے اُسے پورا کرنے کے بعد)

 مرحوم کا مکمل ترکہ پانچ(٥)حصوں پر تقسیم ہوگا جس میں سے ہر ایک بیٹے کو دو دو حصے ملیں گے اور بقیہ ایک حصہ بیٹی کو ملے گا کیونکہ بیٹے کا حصہ بیٹی کی بنسبت دگنا ہوتا ہے۔چنانچہ قرآن کریم میں ہے:

یُوْصِیْكُمُ اللّٰهُ فِیْۤ اَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ۔(النساء:۱۱/۴)

ترجمہ کنز الایمان: اللہ تمہیں حکم دیتا ہے تمہاری اولاد کے بارے میں بیٹے کا حصہ دو بیٹیوں برابر۔

واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب

کتبہ:

محمد اُسامہ قادری

پاکستان،کراچی

بدھ،٧ رجب١٤٤٣ھ۔٩ فروری٢٠٢٢م







ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney