حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں کملی یا مکھڑا کا لفظ استعمال کرنا کیسا ہے؟


 سوال نمبر 2020

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ 

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان عظام مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے شان میں کملی یا مکھڑا کا لفظ استعمال کرنا کیسا ہے جواب عنایت فرمائیں؟

المستفتی : محمد گلبہار عالم رضوی اُتر دیناجپور بنگال




وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ 

الجواب بعون الملک العزیز الوھاب 

مذکورہ الفاظ حضور نبی کریم ﷺ کی شان میں بولنا اورلکھنا تحقیرکی صورت میں کفر اور محبت کی صورت میں کفر نہیں مگر حرام ضرور ہے.

حضرت علامہ مفتی بدرالدین احمد قادری رضوی نوری علیہ الرحمہ فرماتے ہیں 

کہ ، پیشوایانِ دین فقہاء شریعت نے کلمۂ تصغیر کی اصل وضع پر نگاہ رکھ کر سرکار مصطفی ﷺ کے حق میں اس کا بولنا اگر بطور تحقیر ہو تو کفر قرار دیا ہے اور اگر بطور محبت ہو تو سخت ممنوع و حرام ٹھرایا ہے ،مثلاً، سرکارﷺ کی مقدس چادر شریف کو چدریا سرکارﷺ کے مقدس راستے کو ڈگریا سرکارﷺ کے بابرکت نگر کو نگریا سرکارﷺ کے چہرہ انور کو مکھڑا سرکارﷺ کے مقدس آنگن کو انگنوا سرکارﷺ کی نظر اقدس کو نظریا اور نجریا سرکارﷺ کے مقدس کاشانہ کو بکھریا سرکارﷺ کی ذات قدسی کو عربی سنوریا یا عربی سجنوا بولنا پڑھنا اورلکھنا تحقیرکی صورت میں کفر اور محبت کی صورت میں کفر نہیں مگر حرام ضرور ہے


 ( عطیۂ ربانی در مقالۂ نورانی صفحہ۹،۱۰ رضا اکیڈیمی ممبئ)

ایضاً 

" اِن کلماتِ تصغیر سے سرکارﷺ کی عظمت کا جھنڈا نہیں لہرا رہا ہے بلکہ سرکار کا حق تعظیم ضائع وتلف ہورہا ہے

(صفحہ نمبر ۲۲)


اور یہی مذکور مصنف رحمۃ اللہ علیہ اپنی دوسری کتاب میں فرماتے ہیں 

 کملیا چدریا نگریا وغیرہ سارے مذکورہ الفاظ کو قطعی کلمات تصغیر قرار دیا ہے اور فرمایا


" کلمات تصغیر کا استعمال سرکار مصطفی ﷺ کے حق یا سرکار(ﷺ) سے نسبت رکھنے والی اشیاء کے بارے میں مطلقًا سخت ممنوع ہے پھر اگر وہ کلمات تحقیر کے لیے ہوں تو ان کا استعمال صریح کفر ہے اور اگر پیار و محبت کے لئے ہو تو ان کا استعمال کفر نہیں مگر حرام ضرور ہے "


(فتاوی بدر العلماء صفحہ نمبر ۳۱۱ مکتبہ رضا اکیڈمی ممبئی )


سرکار اعلٰی حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتےکہ" ان چیزوں کی تصغیر جو حضور ﷺ سے متعلق ہیں مطلقا ممنوع ہے اگرچہ یہ تصغیر بر وجہ محبت ہو بلکہ تصغیر کبھی تعظیم کے لیے بھی آتی ہے اور اس کی مثال ہماری زبان میں ناک کی تصغیر میں ناکڑا ہے یعنی بڑی ناک یہ لفظ بڑی ناک ہی کے لئے بولا جاتا ہے اور اس کے باوجود ممانعت اور حرمت کے باب میں ایہام کافی ہے اور علماء نے مصحف کی تصغیر میں مصیحف( مصحفوا) اور مسجد کی تصغیر میں مسیجد(مسجدیا) کہنے سے منع فرمایا لہذا بعض شعراء جوہرِ وادی میں سرگرداں پھرتے ہیں نعت میں مکھڑا یا انکھڑیاں یا ان جیسے الفاظ بلا غور و فکر کہہ دیتے ہیں ان الفاظ سے پرہیز کریں

  (المعتقد المنتقد المعتمد المستند مترجم ۲۲۴ مکتبہ برکات المدینہ جامع مسجد بہار شریف بہادر آباد کراچی پاکستان)


اور حضور صدرالشریعہ بدرالطریقہ علامہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں 

کہ" جو شئ حضور ﷺ کی طرف منسوب ہو وہ معظم ہوجاتی ہے نہ کہ کمبل سے کملیا کردیا جائے ایسے الفاظ سے بچنا چاہیے "(فتاوی امجدیہ جلد چہارم صفحہ نمبر ۲۶۰ مکتبہ رضویہ آرام باغ روڈ کراچی پاکستان )


اور حضرت علامہ مفتی محمد شریف الحق امجدی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں 

" صیغۂ تصغیر کا استعمال مطلقًا ممنوع ہے اگر چہ بہ نیت محبت و تعظیم ہو اور اگر معاذاللہ بہ نیت تحقیر ہو تو کفر ہے "


پھر چند سطر بعد فرماتے ہیں" اس تقدیر پر اس کا استعمال حضور ﷺ کے لباس پر ممنوع ہوگا اور جو بعض اکابر کے کلام میں آگیا ہے اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ اکابر سے بھی بوجہ بے التفاتی اس قسم کی لغزش ہوتی چلی آئی ہے جیسے مدینہ طیبہ کو یثرب کہنا بالاتفاق ممنوع ہے لیکن عارف باللہ حضرت عبدالرحمٰن جامی قدس سرہ کے کلام میں وارد ہے "


(فتاوی شارح بخاری جلد اول صفحہ نمبر ۵۳۷ ناشر البرکات گھوسی ضلع مئو یوپی )


لہذا اشیاء متبرکہ منسوبہ الی النبی ﷺ کو الفاظ مصغرہ سے بنیت محبت و الفت تعبیر کرنا بھی حرام و ممنوع ؛ اور بنیت تحقیر کفر؛ اور فتاویٰ فقیہ ملت میں جواز کا قول بوجہ بے التفاتی متروک 


واللہ اعلم 

کتبہ 

محمد معراج عالم رضوی براہی سنبھل یوپی ہند







ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney