ایک بہن میں ترکہ کیسے تقسیم ہو گا؟


 سوال نمبر 2023

السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ

الاستفتاء:حضرت میرا سوال یہ ہے کہ ایک عورت کا انتقال ہو گیا ہے اس نے اپنے ورثاء میں ایک بہن کو چھوڑا ہے باقی نہ اس کی اولاد ہے نا شوہر نہ بھائی نہ والدین اب اس کی وراثت کیسے تقسیم ہوگی، کیا مرحومہ کی وراثت میں اس کے بھانجے بھانجیوں، دو بھتیجوں اور دو بھتیجیوں کا حق ہے؟

سائل منیب الرحمن بنگال




وعلیکم السلام و رحمتہ اللہ و برکاتہ 

باسمہ تعالیٰ وتقدس الجواب:

برتقدیرِ صدق سائل وانحصارِ ورثاء در مذکورین بعدِ اُمورِ ثلاثہ متقدّمہ علی الارث(یعنی،کفن دفن کے تمام اخراجات اور اگر مرحومہ کے ذمے قرض ہو تو اس کی ادائیگی اور غیرِ وارث کیلئے وصیت کی ہو، تو تہائی ۱/۳ مال سے اُسے پورا کرنے کے بعد) مرحومہ کا مکمل ترکہ چار حصوں پر تقسیم ہوگا جس میں سے بہن کو نصف حصہ یعنی دو حصے ملیں گے، کیونکہ میت کی اولاد نہ ہونے کی صورت میں ایک بہن کا نصف حصہ ہوتا ہے۔چنانچہ قرآن کریم میں ہے:

اِنِ امْرُؤٌا هَلَكَ لَیْسَ لَهٗ وَلَدٌ وَّ لَهٗۤ اُخْتٌ فَلَهَا نِصْفُ مَا تَرَكَ۔(النساء:١٧٦/٤)

ترجمہ کنز الایمان:اگر کسی ایسے مرد کا انتقال ہو جو بے اولاد ہے اور اس کی ایک بہن ہو تو ترکہ میں اس کی بہن کا آدھا ہے۔

   اور بقیہ دو حصے مرحومہ کے دو بھتیجوں میں بطورِ عصبہ تقسیم ہوں گے اور وہ اس طرح کہ ہر ایک بھتیجے کو ایک ایک(١،١) حصہ ملے گا، کیونکہ حدیث شریف میں ہے:أَلْحِقُوا الفَرَائِضَ بِأَهْلِهَا، فَمَا بَقِيَ فَهُوَ لِأَوْلَى رَجُلٍ ذَكَرٍ۔(صحیح البخاری،کتاب الفرائض،باب میراث الولد من ابیہ وامہ،۹۹۷/۲)

یعنی،فرائض ذوی الفروض کو دو، اور جو بچ جائے وہ قریب ترین مرد کے لئے ہے۔

   اور چونکہ بھتیجے موجود ہیں، لہٰذا ان کی بہنوں کا مرحومہ کی وراثت میں کوئی حق نہیں ہے کہ وہ ذوی الارحام میں سے ہیں۔چنانچہ علامہ علاء الدین حصکفی حنفی متوفی١٠٨٨ھ لکھتے ہیں:ان ابن الاخ لا یعصب اختہ کالعم لا یعصب اختہ بل المال للذکر دون الانثی لانھا من ذوی الارحام۔ملخصاً(الدر المختار،کتاب الفرائض،فصل فی العصبات،ص٧٦٥)

یعنی،بھتیجا بھتیجی کو عصبہ نہیں بنائے گا جیسے چچا پھوپھی کو عصبہ نہیں بنائے گا بلکہ مال مذکر(لڑکے) کیلئے ہوگا نہ کہ مٶنث کیلئے کیونکہ وہ ذوی الارحام میں سے ہے۔

   اور اسی طرح مرحومہ کی جائیداد میں اس کے بھانجے اور بھانجیوں کا بھی کوئی حق نہیں ہے، کہ یہ سب بھی ذوی الارحام میں سے ہیں اور عصبات کی موجودگی میں ذوی الارحام محروم رہتے ہیں۔چنانچہ علامہ نظام الدین حنفی متوفی١١٦١ھ اور علمائے ہند کی ایک جماعت نے لکھا ہے:وذوو الارحام اربعة اصناف:صنف ینتمی الی المیت وھم اولاد البنات واولاد بنات الابن۔(الفتاوی الھندیة،کتاب الفرائض،الباب العاشر فی ذوی الارحام،٤٥٨/٦۔٤٥٩)

ذوی الارحام کی چار اقسام ہیں، پہلی قسم میں وہ لوگ ہیں جو میت کی اولاد میں ہوں، یہ بیٹیوں یا پویتوں کی اولاد ہے۔

واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب

کتبہ:

محمد اُسامہ قادری

پاکستان،کراچی

منگل،١٣ رجب١٤٤٣ھ۔١٥ فروری٢٠٢٢م







ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney