ایک بیوی ایک بہن چھ بیٹی میں وراثت کیسے تقسیم ہوگی؟


سوال نمبر 2025

 السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

الاستفتاء:علمائے کرام کی بارگاہ میں بہت ادب و احترام کے ساتھ عرض ہے کہ ایک شخص فوت ہوا اس کا ترکہ بیاسی(٨٢) کنال زمین ہے ورثاء میں ایک بیوی، چھ(٦) بیٹیاں، ایک سگی بہن اور ایک سوتیلی یعنی ماں شریک بہن ہے، ترکہ کیسے تقسیم ہوگا؟سائل:رضوان،لاہور




وعلیکم السلام و رحمتہ اللہ و برکاتہ 

باسمہ تعالیٰ وتقدس الجواب:

صورتِ مسئولہ میں برتقدیر صدق سائل وانحصار ورثاء در مذکورین بعدِ اُمورِ ثلاثہ متقدّمہ علی الارث(یعنی،کفن دفن کے تمام اخراجات اور اگر مرحوم کے ذمے قرض ہو تو اس کی ادائیگی اور غیرِ وارث کیلئے وصیت کی ہو، تو تہائی ۱/۳ مال سے اُسے پورا کرنے کے بعد) مرحوم کا بیاسی کنال ترکہ بہتر(٧٢) حصوں پر تقسیم ہوگا جس میں سے بیوہ کو آٹھواں حصہ یعنی نو(٩) حصہ زمین ملے گی، کیونکہ میت کی اولاد ہونے کی صورت میں بیوہ کا آٹھواں حصہ ہوتا ہے۔چنانچہ قرآن کریم میں ہے:فَاِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ۔(النساء:۱۲/۴)

ترجمہ کنز الایمان:پھر اگر تمہارے اولاد ہو تو ان کا تمہارے ترکہ میں سے آٹھواں۔

   اور مکمل ترکہ کا دو تہائی حصہ یعنی اڑتالیس(٤٨) حصہ زمین مرحوم کی چھ بیٹیوں میں تقسیم ہوگی اور وہ اس طرح کہ ہر ایک بیٹی کو آٹھ آٹھ(٨،٨) حصہ زمین ملے گی، کیونکہ بیٹیاں دو یا دو سے زائد ہوں، تو ان سب کو دو تہائی حصہ ملتا ہے اور وہ ان میں برابر برابر تقسیم ہوتا ہے۔چنانچہ قرآن کریم میں ہے:فَاِنْ كُنَّ نِسَآءً فَوْقَ اثْنَتَیْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَکَ۔(النساء:۱۱/۴)

ترجمہ کنز الایمان:پھر اگر نِری لڑکیاں ہوں اگرچہ دو سے اوپر تو ان کو ترکہ کی دو تہائی۔

   اور بقیہ پندرہ(١٥) حصہ زمین مرحوم کی سگی بہن کو بطور عصبہ ملے گی، کیونکہ حدیث شریف میں ہے:حدثنا بشر بن عمر، قال سالت ابن ابی الزناد عن رجل ترک بنتاً واختاً؟ فقال لابنتہ النصف، ولاختہ ما بقی وقال اخبرنی ابی عن خارجة بن زید، ان زید بن ثابت کان یجعل الاخوات مع البنات عصبة، لا یجعل لھن الی ما بقی۔(سنن الدارمی،کتاب الفرائض،باب فی بنت واخت،برقم:٤٤٦/٢،٢٨٨١)

یعنی،بشر بن عمر بیان کرتے ہیں:میں نے حضرت ابن ابی زناد رضی اللہ عنہ سے ایک ایسے شخص کے بارے میں سوال کیا جس نے پسماندگان میں ایک بیٹی اور ایک بہن چھوڑی ہو، تو انہوں نے جواب دیا کہ اس کی بیٹی کو نصف حصہ ملے گا اور اس کی بہن کو باقی ماندہ مال ملے گا، اور راوی بیان کرتے ہیں:انہوں نے یہ بات بھی بتائی کہ میرے والد نے مجھے حضرت خارجہ بن زید رضی اللہ عنہ کے حوالے سے یہ خبر دی ہے کہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ بہنوں کو بیٹیوں کے ساتھ عصبہ قرار دیتے تھے، وہ انہیں بقیہ مال دیا کرتے تھے۔

   اور علامہ محمد شہاب الدین بن بزار کردری حنفی متوفی٨٢٧ھ لکھتے ہیں:واما الاخوات لاب وام۔۔۔لھن الباقی مع البنات او مع بنات الابن لقولہ علیہ السلام:اجعلوا الاخوات مع البنات عصبة۔(الفتاوی البزازیة علی ھامش الھندیة،کتاب الفرائض،الفصل الاول فی اصحاب الفرائض،٤٥٦/٦)

یعنی،حقیقی بہنوں کے ساتھ بیٹیاں یا پوتیاں ہوں، تو بہنیں عصبہ بنیں گی، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا فرمان ہے:بہنوں کو بیٹیوں کے ساتھ عصبہ بناؤ۔

   اور سوتیلی یعنی ماں شریک بہن کا مرحوم کی وراثت میں کوئی حق نہیں ہے، کیونکہ میت کی بیٹی موجود ہے۔چنانچہ علامہ سراج الدین محمد بن عبد الرشید سجاوندی حنفی متوفی٦٠٠ھ لکھتے ہیں:واما لاولاد الام۔۔۔یسقطون بالولد وولد الابن وان سفل وبالاب والجد بالاتفاق۔(السراجیة،باب معرفة الفروض ومستحقیھا،ص١٩۔٢٠)

یعنی،ماں شریک بھائی میت کے بیٹا بیٹی، پوتا پوتی(نیچے تک) باپ یا دادا کے ہوتے ہوئے بالاتفاق محروم ہوجائیں گے۔

   اور علامہ نظام الدین حنفی متوفی١١٦١ھ اور علمائے ہند کی ایک جماعت نے لکھا ہے:ویسقط اولاد الام بالولد وان کان بنتاً۔(الفتاوی الھندیة،کتاب الفرائض،الباب الثانی فی ذوی الفروض،٤٥٠/٦)

یعنی،ماں شریک بھائی یا بہن میت کی اولاد کے ہوتے ہوئے محروم ہوجائیں گے اگرچہ اولاد میں بیٹی ہو۔

واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب

کتبہ:۔

محمد اُسامہ قادری

پاکستان،کراچی

منگل،١٤ رجب١٤٤٣ھ۔١٦ فروری٢٠٢٢م







ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney