کن کن وجہ سے طلاق دیا جا سکتا ہے؟


 سوال نمبر 2053

اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎ 

 کیا فرماتے ہیں علماۓ کرام اس مسئلہ میں کہ کن کن صورتوں میں طلاق دیا جا سکتا ہے ؟ جواب عنایت فرماکر شکریہ کا موقع دیں۔ 

المستفتی ۔ محمد شاکر علی چپرہ



وعلیکم السلام ورحمةاللہ وبرکاتہ 

الجواب بعون الملک الوھاب ۔

طلاق دینا جائز ہے مگر جائز چیزوں میں جو اللہ ﷻ کو زیادہ ناپسند ہے وہ طلاق ہے ۔ بلا وجہ شرعی طلاق دینا ممنوع و معیوب ہے اور وجہ شرعی ہے تو مباح ہے بلکہ بعض صورتوں میں مستحب ہے، جیسے عورت اس کو یا دوسروں کو تکلیف دیتی یا نماز نہیں پڑھتی ہے۔ اور بعض صورتیں میں میں طلاق دینا واجب ہے، مثلاً شوہر نامرد ہے کہ ہمبستری کرنے پر قادر نہیں اور اس کے ازالہ کی بھی کوئی صورت نظر نہیں آتی کہ اس صورت میں طلاق نہ دینا سخت تکلیف پہنچانا ہے۔

 

فقیہ اعظم حضور صدرالشریعہ بدرالطریقہ علامہ مفتی محمدامجدعلی اعظمی علیہ الرحمةوالرضوان تحریرفرماتےہیں ،، طلاق دینا جائز ہے مگر بے وجہ شرعی ممنوع ہے اور وجہ شرعی ہو تو مباح بلکہ بعض صورتوں میں مستحب مثلاً عورت اس کو یا اوروں کو ایذا دیتی یا نماز نہیں پڑھتی ہے۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ بے نمازی عورت کو طلاق دے دوں اور اُس کا مہر میرے ذمہ باقی ہو، اس حالت کے ساتھ دربار خدا میں میری پیشی ہو تو یہ اُس سے بہتر ہے کہ اُس کے ساتھ زندگی بسر کروں۔ اور بعض صورتوں میں طلاق دینا واجب ہے مثلاً شوہر نامرد یا ہیجڑا ہے یا اس پر کسی نے جادو یا عمل کردیا ہے کہ جماع کرنے پر قادر نہیں اور اس کے ازالہ کی بھی کوئی صورت نظر نہیں آتی کہ ان صورتوں میں طلاق نہ دینا سخت تکلیف پہنچانا ہے۔

(بحوالہ درمختار وغیرہ)


بہارشریعت جلددوم حصہ ہشتم صفحہ ١١٢ المکتبة المدینة دعوت اسلامی ۔


فتاوی فیض الرسول جلددوم صفحہ ١٣٠ پر ہے ،، ہندہ اپنے شوہر زید اور اس کے والدین کوایذا دینے والی تھی اور لائق طلاق تھی طلاق دینے کے سبب زید مستحق ملامت نہ ہوا ۔ لھذا جو شخص یہ کہتا ہے کہ لڑکی ہزار بارغلطی کرے مگر وہ لائق طلاق نہیں اور جولوگ ایسی نافرمان عورت کو طلاق دینے کے سبب مخالف ہو گئے وہ سب غلطی پرہیں ۔ 


فتاوی علیمیہ جلددوم صفحہ ١٦٩ پر ہے ،،

 حرام کار عورت کو طلاق دینے میں کوئ حرج نہیں بلکہ مستحب ہے ۔ 


درمختارمع ردالمحتار جلددوم صفحہ ٤١٦ میں ہے ،، بل یستحب لو موذیة او تارکة صلاة غایة ،، 

ردالمحتار میں ہے الظاھر ان ترک الفرائض غیرالصلوة کالصلوة ۔


شیخ الاسلام والمسلمین حضور سیدی اعلیحضرت امام احمدرضاخان محدث بریلوی رضی اللہ تعالی عنہ رقمطراز ہیں ،، چوں فسق وارتکاب چیزے ازمحرمات ثابت شود طلاق مستحب گردد ،، 

فتاوی رضویہ جلد پنجم صفحہ ٥٩٩ 

البتہ ایسی عورت کو طلاق دینا واجب نہیں ۔ شوہر کو اختیار ہے وہ رکھے یا طلاق دیدے ۔ 

فتاوی رضویہ ہی میں ہے ،، اما واجب نیست اگر شوۓ دادن نخواہد ندہد فی الدرمختار لایحب علی الزوج تطلیق الفاجرة ،، 

لھذا ہندہ کا شوہر اگر چاہے تواسےرکھےیاطلاق دیدے دونوں اختیار ہے ۔ ہاں طلاق دےدینا بہتر ہے ۔ 


وھوسبحانہ تعالی اعلم بالصواب 

کتبه 

العبد ابوالفیضان محمّد عتیق اللہ صدیقی فیضی یارعلوی ارشدی عفی عنہ 

دارالعلوم اھلسنت محی الاسلام 

بتھریاکلاں ڈومریا گنج سدھارتھنگر یوپی ۔ 

 ١١ شعبان المعظم ١٤٤٣ھ 

١٥ مارچ ٢٠٢٢ء







ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney