(قاری زین العابدین ومولاناعقیل الرحمن صاحبان کےاشعار کی وضاحت)

سوال نمبر 2055

مسئلہ:نائبِ سرپرست مولانا تاج محمد واحدی صاحب قبلہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ بعد از سلام عرض ہے کہ قاری زین العابدین صاحب کے اشعار کی وضاحت فرما دیں کہ کیا اس کا پڑھنا درست ہے یا نہیں؟

(۲) زید کا کہنا ہے کہ جھوٹ جھوٹ ہوتا ہے تین صورتوں کے علاوہ کسی صورت میں جھوٹ بولنا جائز نہیں ہے اور اگر کوئی بولتا ہے تو شرعا گنہگار ہوگا اور اگر علانیہ طور پر بولتا ہے تو فاسق معلن ہوگا ؟

(۳) قاری زین العابدین صاحب کے اشعار کی رد میں شاعر اسلام عقیل الرحمن صاحب نے لکھا ہے

 یہ بات کسی حال میں مانی نہ جائے گی
 ماں جھوٹ بول بول کے جنت میں جائے گی

ماں کیسے جھوٹ بول کےجنت میں جا ئے گی 

اس کا پڑھنا درست ہے یا نہیں؟زید کہتا ہے کہ یہ شعر درست ہے اس کو پڑھا جائےجواب دے کر رہنمائی فرمائیں

 منجانب : حکیم صبغت اللہ ،اراکین مسائل شرعیہ،(مولانا )ساجد علی لکھنؤ۔(مولانا )جان محمدمراد آبادی،(مولانا) عتیق اللہ فیضی ارشدی سدھارتھ نگر(حافظ و قاری)محمد معراج احمد سنبھلی،(حافظ) ابرار القادری سعد اللہ نگر،محمد ضیاء المصطفیٰ رضوی اسلام پور بہار(مولانا )رجب علی قادری فیضی اترولوی،

نوٹ:۔ سب کے سوال الگ، الگ تھے مگر مفہوم تقریبا ایک ہی تھا اس لئے ایک سوال بنا دیا گیا ہے۔

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ و برکا تہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بعون الملک الوہاب 

قاری زین العابدین صاحب کے اشعار میں تاویل کی گنجا ئش ہےمثلاً ماں بھوکی ہو تی ہے مگر کھاناکم ہو نے کی صورت میں کہتی ہے بیٹا مجھے بھوک نہیں بظاہر یہ جھوٹ تو ہے مگر حقیقت میں یہ جھوٹ نہیں ہے کیونکہ ماں کی محبت اس قدر ہو تی ہے کہ بیٹے کی بھوک اور کھانے کی کمی کی وجہ سے حقیقت میں اس کی بھوک مرجا تی ہےتو ماں کا یہ کہنا کہ بیٹا کھالو مجھے بھوک نہیں ہے یہ جھوٹ کہاں ؟پھر کھانا بچنے کی صورت میںبھوک لگ جا تی ہے اور کھا لیتی ہے۔ جو صاحب اولاد ہیں وہ اس بات کو بآسانی سمجھ سکتے ہیں ۔یو نہی بیمار ماں، بیٹے کے پو چھنے پر کہتی ہے بیٹا مین ٹھیک ہوں مطلب جسمانی طور پر بیماری تو ہے ہی مگر بیٹے کی محبت اور لاڈ و پیار ماں کے درد و دکھ کو دور کردیتا ہےجیسے مجاہدین جنگ میں تیروں، تلواروں سے زخمی ہوجاتے مگر جب سپہ سالار (سردار) ان سے پو چھتا کہ کیسے ہیں تو یہی کہتے کی سردار ٹھیک ہوں۔

 جنگ احد کے موقع پر ایک صحابیہ کے بھائی باپ اور شوہر شہید ہوگئے جب ان کو خبر ملی کہ تمہارے باپ بھا ئی شوہر شہید ہو گئے ہیں تو انھوں نے پو چھا کہ حضور ﷺ کا کیا حال ہے انہیں خبر دی گئی کہ حضور ﷺ ٹھیک ہے تو عورت نے فرمایا کہ  جب حضور ﷺ ٹھیک ہیں تو پھر کو ئی غم نہیں ۔آ پ سوچیں ذرا کہ جس کے بھا ئی باپ بیٹے کی شہادت ہوجا ئے تو کیا غم نہ ہوگا بالکل ہوگا مگر یہاں بھائی بیٹا باپ کے مقا بلے میں حضور ﷺ تھے اس لئے حقیقت میں اس خاتون کو غم نہ ہوا یعنی یہ جھوٹ نہیں بلکہ حقیقت میں غم جاتا ہے حضور ﷺ کی سلامتی سن کر ۔یونہی ماں اپنے بیٹے کا مسکراتا چہرہ دیکھ کر غم و دکھ بھول جا تی ہے اور کہتی ہے بیٹا میں ٹھیک ہوں یہ جھوٹ نہیں ہے بلکہ حقیقت میںماں کا دکھ دور ہوجاتا ہے جو صاحب اولادہیں محسوس کرسکتے ہیں ۔

کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر تاویل کی جا ئے تو گنجائش ہے، یعنی شعر بنفسہٖ درست ہےپھر بھی قوم کے سامنےپڑھنا جائز نہیں،اس لئے کہ عوام الناس کو جھوٹ کی رغبت ملتی ہےیعنی اگر چہ بات حقیقت ہو مگر عوام پر برا اثر پڑ رہاہو تو اس سے بچنا لازم ہے جیسے مسلم شریف میں ایک لمبی حدیث ہےجس کا کچھ حصہ یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کونعلین پاک دیکر فرمایا دیوار کے باہر جو کلمہ پڑھتا ہوا ملے اسے جنت کی بشارت دے دو، تو سب سے پہلے حضرت عمر رضی اللہ عنہ ملے تو حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا اےعمر!(رضی اللہ عنہ) رسول اللہ ﷺ نے یہ نعلین دے کر مجھے بھیجا ہے کہ میں ایسے جس شخص سے ملوں جو دل کے یقین کے ساتھ گواہی دیتا ہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، میں اسے جنت کی بشارت دوں، (یہ سن کر) حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے میرے سینے پر مارا تو میں سرین کے بل گر پڑا، انہوں نے کہا: ابوہریرہ واپس چلے جاؤ۔ میں روتا ہوا رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں واپس آیا، جبکہ حضرت عمر بھی میرے پیچھے پیچھے چلے آئے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:ابوہریرہ! تمہیں کیا ہوا؟میں نے عرض کیا: میں عمر سے ملا تو انہوں نے میرے سینے پر اس زور سے مارا کہ میں سرین کے بل گر پڑا۔ اور کہا کہ واپس چلے جاؤ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: عمر! تمہیں ایسا کرنے پر کس چیز نے آمادہ کیا؟‘‘ انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے والدین آپ پر قربان ہوں، کیا آپ نے اپنے جوتے دے کر ابوہریرہ کو بھیجا تھا کہ تم جس ایسے شخص کو ملو، جو دل کے یقین کے ساتھ گواہی دیتا ہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اس کو جنت کی خوشخبری سنا دو؟ آپ ﷺ نے فرمایا:’’ ہاں‘‘ انہوں نے عرض کیا: آپ ایسے نہ کریں، مجھے اندیشہ ہے کہ لوگ اس بات پر توکل کر لیں گے آپ انہیں چھوڑ دیں تاکہ وہ عمل کرتے رہیں۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:انہیں چھوڑ دو۔(رواہ مسلم،مشکوۃ)

مذکورہ حدیث کو پڑھیں اور غور کریں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے منع کروادیا یہ کہہ کر کہ کہیں اسی پر توکل نہ کرلیں اور عمل چھوڑ دیں جب کہ وہ صحابہ کی جماعت تھی ،تو کیا اِس دورکے مسلمانوں کے مابین اس طرح کے شعرپڑھنے کی اجازت ہو گی جو نماز ،روزوں سے دور ،ہیں نہ خوف خدا ہے ،نہ عشق نبیﷺ ہے؟نہیں ہر گز نہیں ورنہ مائیں نڈر ہو جا ئیں گی جھوٹ کا دروازہ کھل جا ئے گا ۔

 لہذا اس شعر کو نہ پڑھاجا ئے۔اور قاری زین العابدین صاحب کو بھی چا ہئے کہ توبہ کرلیں اور اس شعر کو نہ پڑھیں مومن کبھی حق سے نہیں مڑتا ہے بلکہ حق قبول کرتا ہے ۔اللہ تعا لیٰ سمجھنے کی تو فیق عطا فرما ئے۔آمین 

(۲)زید کا کہنا ہے کہ جھوٹ جھوٹ ہوتا ہے تین صورتوں کے علاوہ کسی صورت میں جھوٹ بولنا جائز نہیں ہے اور اگر کوئی بولتا ہے تو شرعا گنہگار ہوگا اور اگر علانیہ طور پر بولتا ہے تو فاسق معلن ہوگا ۔بیشک جھوٹ جھوٹ ہوتا ہے اور جھوٹوں پر اللہ نے لعنت فرما ئی ہے ارشاد ربا نی ہے(لَعْنَتُ اللہِ عَلَی الْکٰذِبِیْن)جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ۔(آل عمرا ن،آیت ۶۱)

مگر یہ کہنا کہ تین صورتوں کے علاوہ جھوٹ بولنا جائز نہیں یہ سراسر غلط ہے کہ تین صورتوں کے علاوہ اوربھی صورتیں ہیں جن میں جھوٹ بولنے کی اجازت ہے بلکہ بعض صورتوں میں جھوٹ بولنا واجب ہے یعنی اگر نہیں بولے گا تو شرعاً گنہگار ہوگا وہ سورتیں مندرجہ ذیل ہیں۔

(۱) اپنا حق حاصل کرنے کے لئے جھوٹ بولنا مباح ہے جبکہ سچ بولنے سے حاصل نہ ہوتا ہو۔

(۲) بلا وجہ کسی کو قتل کرنا چاہتا ہے اور وہ بھاگ کر چھپ گیا اب ظالم اس سے پو چھ رہا ہےکہ فلاں کو دیکھا ہے تو اس پر واجب ہے کہ کہے میں نے نہیں دیکھا ہے یا کسی کی امانت ہو اور دوسرا چھیننا چا ہتا ہے تو اس صورت میں بھی اس پر جس کے پاس رقم ہے واجب ہے کہ  کہے فلاں کا رقم میرے پاس نہیں ہے۔

(۳)کسی نے چھپ کر بے حیائی کی دوسرا پوچھ رہا ہے تو انکار کردے یعنی جھوٹ بولے کہ گناہ کو ظاہر کرنا بھی گناہ ہےیا کسی اور کو گناہ کرتے دیکھا اور دوسرا شخص اس سے پوچھ رہا ہے کہ فلاں نے یہ کام کیا ہے جب بھی جھوٹ بولنے کی اجازت ہے یعنی سچ بتا نے سے انکار کردے۔

(۴) سچ بو لنے میں فساد ہو تو جھوٹ بولنا جائز ہے۔

تفصیل کے لئے بہار شریعت  حصہ ۱۶؍ ص ۵۱۸؍ دعوت اسلامی کا مطالعہ کریں ۔

فتاوی رضو یہ شریف میں ہے : اگر ظلم شدید ایسا ہو کہ قابل برداشت نہیں، ضرر ایسا سخت ہے جس کا مفسدہ کذب کے مفسدہ سے بڑھ کر ہے اور ا س کا دفع بے کذب ناممکن ہو تو بمجبوری اجازت پاسکتاہےلان الضرورات تبیح المحظوراتکیونکہ ضروریات ممنوع چیزوں کو مباح کرتی ہیں۔(جلد ۲۰؍ص ۱۹۷؍دعوت اسلامی)

(۵)ایسی صورت میں جہاں حرام سے بچنا ہوتا ہو خلاف واقع بات کہنا جائز ہے توحرج نہیں۔(فتاوی رضویہ جلد ۲۱؍۲۲۵)

زید سے پو چھیں کہ یہ مذکورہ بالا صورتیں جائز ہیں یا نہیں ؟پھر اگر ہر جھوٹ پر احکام شرع نافذ ہوتے ہیں تو سیدنا اما م اعظم پر کیا حکم لگا ئیں گےکیونکہ سرکار امام اعظم فقیہوں کے فقیہ تھےاور منصبۂ قضائت کے مستحق تھے مگر جب آپ علیہ الرحمہ کومنصور نےعہدۂ قضا ء پیش کیاتو آپ نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ میں اس کے لائق نہیں ہوں،میں پو چھتاہوں کیا امام اعظم علیہ الرحمہ عہدۂ قضاء کے اہل نہیں تھے؟ بالکل تھے،تو کیا زید امام اعظم علیہ الرحمہ کو فاسق معلن کہے گا ۔معاذ اللہ 

میں جانتا ہوں کہ آپ بیشک اہل تھے مگر قبول نہ کرنے میں کو ئی حکمت ضرور رہی ہو گی اور یہ کہنا کہ میں اس کا اہل نہیں شرع کے خلاف نہیں ورنہ امام اعظم علیہ الرحمہ کبھی ہر گز ایسا نہ کہتے ۔تفصیل دیکھیں سیرت امام اعظم ابو حنیفہ ص ۹۰؍ مصنف علامہ شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ ۔

دنیا جا نتی ہے کہ خلیفۂ دوم حضرت عمر ابن خطاب رضی اللہ عنہ کتنے بڑے عادل تھے نشہ آور نبیذ پینے کی وجہ سے اپنے بیٹے قاری ابو شحمہ کو کوڑے لگوا دئے جس سےبیمار ہو کر انتقال کرگئے۔(فیض الرسول جلد دوم ص ۷۱۰)

مگر جب آپ اس خاتون کے پاس گئےجو رات میں آگ جلا ئے ہو ئی تھی آپ کے ساتھ آپ کے غلام اسلم بھی تھےخاتون کے پاس پہونچ کر دریافت کیا تو خاتون نے بتایاکہ گھر میں کھانے کوکچھ بھی نہیں ہے بچے بھوکے ہیں ان کی تسلی کے لئے پانی پکا رہی ہو ںجب بچے کھانا طلب کرتے ہیں تو کہتی ہوں بیٹا پکا رہی ہو ںبچے اسی انتظار میں سو جا تےہیں۔یہ ایک لمبا واقعہ ہے جس میںحضرت عمر ابن خطاب رضی اللہ عنہ خود اپنےپیٹھ پر لاد کر راشن لاکر دیتے ہیں۔اس کی تفصیل کے لئے تاریخ طبری جلد دوم ص ۵۶۷؍۵۶۸کا مطالعہ کریں 

یونہی ملاقات کرنے والایا فون کال کرنے والاپوچھتا ہے کہ آپ کیسے ہیں؟تو مسئول عنہ جواب میں کہتا ہےالحمدللہ بخیر ہوں،حالانکہ وہ بیمار یا کسی وجہ سے پریشان ہوتا ہے، تو کیا اس کو جھوٹ گردانا جائے گا ؟اور کیا  خیریت و عافیت کا جواب دینے والا جھوٹا کہلائے گا؟یا پھرسائل کے جواب میں پریشانیوں اور بیماریوں کا شمار کرنا واجب ہوگا؟

بعض اکابر حضرات تواضع کی بنیاد پر کہتے ہیں میرے پاس کو ئی علم نہیں ،میں تو ایک عام انسان کی طرح ہوں تو کیا انہیں بھی جھوٹا کہیں گے ؟اور فاسق معلن گرادنیں گے؟ نہیں ہر گز نہیں ۔

یونہی بعض مقررین بیان کرتے ہیں میں نے ستاروں سے پوچھا میں نے چاند سے پو چھا ،میں سورج سے پو چھا ،کہ تجھے کس کے صدقے میں بنایا گیا؟ تو جواب ملا حضور علیہ السلام کے صدقے میں، تو کیا کو ئی چاند و سورج سے پو چھتا ہے کیا چاند و سورج جواب دیتے ہیں ؟نہیں نا،تو کیا ایسے مقررین کو فاسق معلن کہیں گے ؟اسی طرح بہت سارے مقررین سمجھانے کے لئے مثال دیتے ہیںجواہل علم پر مخفی نہیں ہے۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ ہرجھوٹ پر احکام شرع نافذ نہیں ہوتےہیں کیونکہ تین جھوٹ جو حدیث شریف میں ہے اس کے علاوہ بھی بعض صورتوں میں جھوٹ بولنے کی اجازت ہے بلکہ بعض صورتوں میں واجب ہے جو اوپر ذکر کیا لہذا زید کوچا ہئے کہ پہلے کتب فقہ کا مطالعہ کرے پھر کسی پر اعتراض کرے۔

(۳) یہ بات کسی حال میں مانی نہ جائے گی  ماں جھوٹ بول بول کے جنت میں جائے گی

ماں کیسے جھوٹ بول کر جنت میں جا ئے گی 

اس شعر کا بھی پڑھنا جائز نہیں ہے ،یہ تو ایسے ہو گیا کہ ایک بندہ غلط کررہا تھا اور دوسرااس کو روکنے کے لئے گالی گلوج دینے لگا ،یعنی گناہ سے روکنے کے لئے گناہ کرنا شروع کردیا ۔لہذا شاعر اسلام عقیل الرحمن صاحب بھی اپنے شعر سے رجوع کرلیں اور تو بہ کرلیں یونہی جو حضرات پڑھتے ہیں وہ بھی اس شعر کو پڑھنے سے باز آجائیں کیوں کہ یہ کلام حدیث کے خلاف ہے ،ہر کو ئی جانتا ہے کہ جھوٹ بولنا گناہ کبیرہ ہے کفر نہیں ،اور گناہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو حضور ﷺ اسکی شفاعت فرما کر جنت عطا کریں گے جیسا کہ حدیث شریف میں ہے(عَنْ أَبِي الدَّ رْدَاءِ رضی اﷲ عنه : قَالَ قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : شَفَاعَتِي لِأَهْلِ الذُّنُوْبِ مِنْ اُمَّتِي. قَالَ أَبو الدَّرْدَاءِ وَإِنْ زَنٰی وَإِنْ سَرَقَ؟ : قَالَ : نَعَمْ! وَإِنْ زَنٰی وَإِنْ سَرَقَ عَلٰی رَغْمِ أَنْفِ أَبِي الدَّرْدَاءِ.) حضرت ابو دَرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میری شفاعت میری امت کے گنہگاروں کے لئے ہے۔ حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : اگرچہ وہ بدکاری کرے یا چوری کرے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہاں! خواہ وہ بد کاری کرے یا چوری کرے اگرچہ ابو درداء کی ناک خاک آلود ہو۔(کنز العمال، 14 / 398، الرقم : 39056)

یعنی ہر گناہ کرنے والاجنت میں جا ئے گا اگرچہ گناہوں کی وجہ سے عذاب الہی پانےکے بعد یا یہ بھی ہو سکتاہےکہ بیٹے کی تربیت کی وجہ سے حق تعالیٰ معاف فرما دے،بہر حال ذرہ برابر ایمان ہے تو جنت ملے گی۔

 ایک دوسری حدیث میں ہے کہ جس کے دل میں رائی کے دانہ کے برابر ایمان ہو گا وہ جنت میں جا ئے گا ۔حدیث شریف کے الفاظ یہ ہیں’’وَعَنْهُ (ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ ) قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:   إِذَا دَخَلَ أَهْلُ الْجَنَّةِ الْجَنَّةَ وَأَهْلُ النَّارِ النَّارَ يَقُولُ اللَّهُ تَعَالَى: مَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ مِنْ إِيمَانٍ فَأَخْرِجُوهُ فَيَخْرُجُونَ قَدِ امْتَحَشُوا وَعَادُوا حُمَمًا فَيُلْقَوْنَ فِي نَهْرِ الْحَيَاةِ فَيَنْبُتُونَ كَمَا تَنْبُتُ الْحِبَّةُ فِي حَمِيلِ السَّيْلِ أَلَمْ تَرَوْا أَنَّهَا تَخْرُجُ صَفْرَاءَ مُلْتَوِيَةً  . مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ‘‘حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ جب جنتی جنت میں اور جہنمی جہنم میں چلے جائیں گے تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا: جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر ایمان ہے اسے نکال لو، انہیں نکال لیا جائے گا، وہ جل کر کوئلہ بن چکے ہوں گے، انہیں نہر حیات میں ڈال دیا جائے گا اور وہ اس سے اس طرح نمودار ہوں گے جس طرح سیلابی مٹی میں دانہ اگ آتا ہے، کیا تم نے دیکھا نہیں کہ وہ (دانہ شروع میں) زرد رنگ کا لپٹا ہوا پودا نکل آتا ہے۔ (مشکوٰۃ ،حوض اور شفاعت کا بیان حدیث نمبر۵۵۸۰)

مذکورہ حدیث سے واضح ہو گیا کہ ہر گنہگار جو ایمان والاہوگا وہ جنت میں جا ئے گا پھر یہ کہنا کیونکر درست ہوگا۔

یہ بات کسی حال میں مانی نہ جائے گی ماں جھوٹ بول بول کر جنت میں جائے گی

ماں کیسے جھوٹ بول کر جنت میں جا ئے گی 

مطلب شاعر نے جھوٹ کو کفر سمجھ رکھا ہے کیا جو کسی صورت میں جنت میں جانے کو تسلیم نہیں کررہا ہے قاری زین العابدین صاحب کے کلام کو پڑھنے سے اس لئے منع کیا جا رہا ہے کہ اس سے کذب کو فروغ مل رہا ہےنہ کہ جھوٹ بولنےکی وجہ سے مائیں جنت میں نہ جا ئیں گی،لہذاشاعروں کو چا ہئے کہ پڑھنے سے پہلے کسی اہل علم سے تصحیح کروالیں پھر پڑھیں ورنہ خود گنہگار ہونگے اور دوسروں کو بھی کریں گے اللہ تعا لیٰ سمجھنے کی تو فیق عطا فرمائے۔آمین یا رب العلمین بجاہ سید المرسلین ﷺ 

کتبہ

فقیر تاج محمد حنفی قادری واحدی

۱۷؍ شعبان المعظم ۱۴۴۳
 مطابق ۲۱؍ مارچ ۲۰۲۲ بروز پیر

(الجواب صحیح والمجیب و نجیح)

خلیفۂ حضور تاج الشریعہ

العبد سید شمس الحق برکا تی

(الجواب صحیح والمجیب و نجیح)

خلیفۂ نبیرۂ شعیب الاولیاء

منظور احمد یار علوی

(الجواب صحیح والمجیب و نجیح)

خلیفۂ حضور ارشد ملت

محمد ابراہیم خاں امجدی

(الجواب صحیح والمجیب و نجیح)

خلیفۂ تاج ملت

ابو کوثر محمد ارمان جامعی









ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney