کیا والدین اپنے بیٹی کو زکوٰۃ دے سکتے ہیں؟


سوال نمبر 2056

 السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ۔

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان شرع متین مسئلہ کے بارے میں کہ ایک لڑکی ہے اور اُس کا شوہر خرچے کے لئے کچھ بھی رقم نہیں دیتا ہے اور وہ لڑکی بہت پریشانی کے ساتھ اپنی زندگی گزارتی ہے تو کیا ایسی صورت حال میں اس کو زکوٰۃ و فطرہ دے سکتے ہیں یا نہیں  اور جو رقم دینے والے ہیں وہ اس لڑکی کے ماں باپ ہی ہیں؟

(المستفتی :- مونس رضا بہرائچ یوپی)




وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔

باسمہ تعالیٰ وتقدس الجواب:

والدین اپنی بیٹی کو زکوۃ اور صدقہ فطر نہیں دے سکتے ہیں، اگرچہ وہ غریب ہو، ہاں ویسے ہی نفلی صدقات وخیرات کے ذریعے اس کی مدد کرسکتے ہیں بلکہ بہتر اور ثواب کا باعث ہے۔چنانچہ علامہ ابو الحسن احمد بن محمد قدوری حنفی متوفی٤٢٨ھ لکھتے ہیں:ولا یدفع المزکی زکوتہ الی ولدہ وولد ولدہ وان سفل۔ملخصاً

(مختصر القدوری،ص١١٠)

یعنی،زکوۃ دینے والا اپنی اولاد(نیچے تک) کو زکوۃ نہیں دے سکتا ہے۔

   اور علامہ نظام الدین حنفی متوفی١١٦١ھ اور علمائے ہند کی ایک جماعت نے لکھا ہے:ولا یدفع الی اصلہ وان علا وفرعہ وان سفل کذا فی الکافی۔(الفتاوی الھندیۃ،١٨٨/١)

یعنی،اپنی اصل(اوپر تک) اور اپنی فرع(نیچے تک) کو زکوۃ نہیں دے سکتے ہیں، اسی طرح "کافی" میں ہے۔

   اور صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی حنفی علیہ الرحمہ متوفی١٣٦٧ھ لکھتے ہیں:اپنی اولاد بیٹا بیٹی، پوتا پوتی، نواسا نواسی وغیرہم کو زکوۃ نہیں دے سکتا۔ یوہیں صدقہ فطر ونذر وکفارہ بھی انہیں نہیں دے سکتا۔ رہا صدقہ نفل وہ دے سکتا ہے بلکہ بہتر ہے۔(بہار شریعت،٩٢٧/١۔٩٢٨)

   اور جن کو زکوۃ نہیں دے سکتے انہیں صدقہ فطر بھی نہیں دے سکتے ہیں۔چنانچہ علامہ نظام الدین حنفی اور علمائے ہند کی ایک جماعت نے لکھا ہے:ومصرف ھذہ الصدقۃ ما ھو مصرف الزکاۃ کذا فی الخلاصۃ۔

(الفتاوی الھندیۃ،١٩٤/١)

یعنی،صدقہ فطر کا مصرف وہی ہے جو زکوۃ کا ہے اسی طرح "خلاصۃ الفتاوی" میں ہے۔

   اور صدر الشریعہ علیہ الرحمہ لکھتے ہیں:صدقہ فطر کے مصارف وہی ہیں جو زکاۃ کے ہیں یعنی جن کو زکوۃ دے سکتے ہیں، انہیں فطرہ بھی دے سکتے ہیں اور جنہیں زکاۃ نہیں دے سکتے، انہیں فطرہ بھی نہیں سوا عامل کے کہ اس کے لیے زکاۃ ہے فطرہ نہیں۔

(بہار شریعت،٩٤٠/١)

آج کل اکثر اس طرح کے سوال آتے ہیں چالیس روپے میں ایک روپیہ جو زکوٰۃ ہے اسی سے لوگ تعاون کرنا پسند کرتے ہیں اگرچہ وہ اپنی اولاد ہی کیوں نہ ہو جبکہ انتالیس روپیے جو موجود ہیں ان میں سے کچھ رقم خرچ کرکے کسی کی حاجت پوری کرنے کا خیال تک نہیں لاتے اگر انتالیس میں سے ایک روپیہ صدقہ نافلہ کے طور پر خرچ کرکے بندہ اپنے رب کی رضا تلاش کرے تو یقینا اللہ تعالی اسے اجر عظیم عطا فرمائے گا اور اس کے رزق میں برکتیں بھی عطا کریگا اللہ تعالیٰ تمامی مومنین کو راہ خدا میں فراخ دلی سے خرچ‌ کرنے کی توفیق بخشے

واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب

کتبہ:محمد اسامہ قادری

پاکستان،کراچی

بدھ،٢٦/شعبان،١٤٤٣ھ۔٣٠/مارچ،٢٠٢٢ء







ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney