کیا خود کشی کرنے والا بخشا جائے گا؟


سوال نمبر 2057

السلام علیکم و رحمة اللہ وبرکاتہ 

کیا فرماتے ہیں علمائے اسلام اس مسئلہ میں خود کشی کرنے والے کی بخشش کے بارے میں کیا حکم

المستفتی ۔۔۔۔ساکن شاہ جہاں پور


وَعَلَيْكُم السَّلَام وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎

الجواب بعون اللہ و رسولہ 


ہر اس شخص کی مغفرت و بخشش ہوگی جسکا خاتمہ ایمان پر ہوا ہے خواہ وہ کتناہی بڑا گنہگار و بدکار و سیاہ کار ہو یعنی جب تک دنیا میں رہا اعمال صالحہ سےغافل ہوکر بدکاریوں میں مصروف رہا مگر خاتمہ علی الخیر ہوا ہے تو اسکی ضرور مغفرت ہوگی! 

ہاں یہ ضرور ہےاسکے اعمال کی جزا ملے گی یعنی جہنم میں رہکر عذاب پاۓ گا جب تک اللہ چاہےگا بعدہ رب اسکو جہنم سے نکال کر اپنےفضل معافی دیکر جنت عطا فرماۓگا!

اور یہ بھی رحمت الہی سے بعید نہیں کہ اسکو بغیر سزا دیۓ معافی دیکر جنت عطا فرمادے!


قرآن شریف میں ہے.....

اِنَّ اللّٰهَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًاؕ-اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحیم

وَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ

رہا مسٸلہ خودکشی کا اگرچہ یہ گناہ کبیرہ ہے اسکی سزا بھی سخت ہے مگر یہ کفر نہیں ہے اور اللہ نے اپنےبندوں سے وعدہ فرمایا ہے کہ میں تمام گناہوں کو معاف کروں گا سوائے کفر و شرک کے! یعنی جس بندےنے کفر و شرک کیا اور بغیر توبہ کیۓ مرگیا تو اسکی تلافی نہیں ہے یہ شخص ہمیشہ جہنم میں رہےگا! 


حدیث شریف میں ہے ۔۔۔ 


عن أنس بن مالك -رضي الله عنه- قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يقول: «قال الله تعالى يا ابن آدم، إنك ما دعوتني ورجوتني غفرت لك على ما كان منك ولا أبالي، يا ابن آدم لو بلغت ذنوبك عَنان السماء ثم استغفرتني غفرت لك، يا ابن آدم لو أتيتني بقُراب الأرض خطايا ثم لقيتني لا تشرك بي شيئاً لأتيتك بقُرابها مغفرة


حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’اے انسان !جب تک تو مجھ سے دعا کرتا اور امید رکھتا رہے گا میں  تیرے گناہ بخشتا رہوں  گا، چاہے تجھ میں  کتنے ہی گناہ ہوں  مجھے کوئی پروا نہیں ۔اے انسان!اگر تیرے گناہ آسمان تک پہنچ جائیں ،پھر تو بخشش مانگے تو میں  بخش دوں  گا مجھے کوئی پروا نہیں ۔اے انسان! اگر تو زمین بھر گناہ بھی میرے پاس لے کر آئے لیکن تو نے شرک نہ کیا ہو تو میں  تمہیں  اس کے برابر بخش دوں  گا


جامع الترمذی ، المجلدالثانی ، کتاب الدّعوات ، ص ١٩٣

{مجلس بکات مبارکپور}


اور خود کشی مذمت بیان کرتےہوۓ اللّٰه کےنبیﷺ نےاحادیث میں جہاں ہمیشگی کا ذکر فرمایا یعنی خودکشی کرنے ہمیشہ جہنم میں رہےگا یا اس پر جنت حرام ہے! تو وہاں ہمیشگی اور حرام سے مراد مدت طویل ہے یعنی لمبی سزاکاٹےگا ۔۔۔۔ 


حدیث میں ہے ۔۔۔۔


حضرت جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہےنبی کریم ﷺ نےارشادفرمایا ۔۔۔


 كَانَ بِرَجُلٍ جِرَاحٌ فَقَتَلَ نَفْسَهُ فَقَالَ اللَّهُ بَدَرَنِي عَبْدِي بِنَفْسِهِ حَرَّمْتُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ


تم میں سے پہلےایک آدمی کو زخم آ گیا اس نے بے قرار ہو کر خود کو مار ڈالا اللہ تعالی نے فرمایا میرے بندے نے خود فیصلہ کریں کہ میرے حکم پر سبقت کی ہے اس لیے میں نے اس پر جنت حرام کر دی ہے 


صحیح البخاری ، المجلدالاوّل ، کتاب الجناٸز ، ص ١٨٢

{مجلس برکات مباکپور}


مذکورہ حدیث پاک کی شرح میں شارح بخاری مفتی شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ تحریرفرماتے ہیں ۔۔۔۔


خودکشی حرام اور سخت حرام ہے حتیٰ کہ کٸ احادیث میں فرمایا کہ وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جہنم میں رہے گا اگرچہ بربنائے تحقیق یہ مدت کی درازی کو بتانے کے لئے فرمایا ہے یعنی لمبے عرصےتک جہنم میں رہےگا! 


نزھة القاری شرح بخاری ، جلد ٤ ، ص ١٢٦

{داٸرالبرکات گھوسی ، مٸو}


خلاصہ کلام یہی ہے کہ خودکشی حرام سخت حرام ہے مگر کفر نہیں! لہذا یہ کہنا کہ خودکشی کرنےوالے کی بخشش نہیں ہے یہ شریعت پر افتراء ہے 

ایک صورت میں خود کشی کفر بھی ہے!

خاص کر جب اس کا مرتکب خود کشی کو حلال سمجھتا رہا ہو چنانچہ جن روایات میں خود کشی پر کفر کا حکم ہے وہاں تطبیق اسی فرق سے فقہاء نے کی ہے!

اور حلال و حرام سمجھنے کا مدار احوال و قرائن پر موقوف ہو گا!


اور حکمِ قطعی کا علم الله تعالیٰ کے سپرد کیا جائے گا!

واللہ و رسولہ اعلم 

عبیداللہ حنفی بریلوی







ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney