بعد طلاق چار پانچ سال بعد نکاح کرنا کیسا ہے؟


سوال نمبر 2063

 السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ۔

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک عورت کو اس کے شوہر نے تین طلاق دی اس بات کو چار سال ہو گئے لیکن عورت نے اس کی عدت نہیں گزاری اب وہ عورت بلا عدت گزارے دوسرا نکاح کرنا چاہتی ہے تو کیا صورت ہوگی علمائے کرام رہنمائی فرمائیں؟

(سائل: مصطفیٰ نوری گدرپور)





وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔

باسمہ تعالیٰ وتقدس الجواب:

سوال سے ظاہر ہے کہ مذکورہ عورت نے احکامِ عدت کی رعایت نہیں کی ہے، اسی لئے یہ کہا جارہا ہے کہ وہ عدت میں نہیں بیٹھی ہے، پس اگر واقعی ایسا ہے تو وہ عورت ضرور گنہگار ہوئی ہے کیونکہ طلاق یا وفات کی عدت میں عورت پر اپنے شوہر کے گھر پر عدت گزارنا واجب ہے، اسی طرح طلاق بائن یا طلاق مغلظہ کی صورت میں عورت پر سوگ بھی واجب ہوتا ہے اور اس کے معنی یہ ہیں کہ عورت زینت کو ترک کرے یعنی ہر قسم کے زیور وغیرہ استعمال نہ کرے اور نہ ہی مہندی وغیرہ لگائے، اور ترکِ واجب گناہ ہوتا ہے، لہٰذا وہ اپنے اس عمل سے اللہ عزوجل کی بارگاہ میں توبہ کرے لیکن اب وہ عورت دوسرا نکاح کرسکتی ہے بشرطیکہ اسے طلاق کے بعد تین حیض آگئے ہوں اور ظاہر ہے کہ اتنے طویل عرصے میں اسے تین حیض آگئے ہوں گی، اور اگر وہ عورت بوقتِ طلاق حاملہ تھی تو فقط وضع حمل(بچہ جننے) سے اس کی عدت مکمل ہوگئی ہے۔چنانچہ مطلقہ حائضہ کی عدت تین ماہواریاں ہونے کے متعلق قرآن کریم میں ہے:وَ الْمُطَلَّقٰتُ یَتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِهِنَّ ثَلٰثَةَ قُرُوْٓءٍ۔(البقرۃ،٢٢٨/٢)

ترجمۂ کنز الایمان:اور طلاق والیاں اپنی جانوں کو روکے رہیں تین حیض تک۔

   اور حاملہ کی عدت وضع حمل ہونے کے متعلق قرآن کریم میں ہے:

وَ اُولَاتُ الْاَحْمَالِ اَجَلُهُنَّ اَنْ یَّضَعْنَ حَمْلَهُنَّ۔(الطلاق:٤/٦٥)

ترجمۂ کنز الایمان:اور حمل والیوں کی میعاد یہ ہے کہ وہ اپنا حمل جَن لیں۔

   اور یہ بھی واضح رہے کہ "عدت" کی تکمیل احکامِ عدت کی رعایت پر موقوف نہیں ہے، یہاں تک اگر کسی عورت کو خود کے مطلقہ ہونے کا معلوم نہ ہو اور اسے تین حیض آنے کے بعد اس کی خبر ہو جب بھی اس کی عدت پوری ہوجائے گی، حالانکہ ظاہر ہے کہ جس عورت کو خود کے مطلقہ ہونے کا معلوم ہی نہ ہوگا تو وہ عدت کی پابندیوں کا بھی لحاظ نہیں رکھے گی لیکن اس کے باوجود یہ حکم ہونا اس امر پر بین یعنی واضح دلیل ہے کہ "عدت" احکامِ عدت کی رعایت کا نام نہیں ہے بلکہ "عدت" ایک زمانے کے گزرنے کا نام ہے۔چنانچہ علامہ ابو الحسن احمد بن محمد قدوری حنفی متوفی٤٢٨ھ اور علامہ ابو بکر بن علی حنفی متوفی٨٠٠ھ لکھتے ہیں:

(وابتداء العدۃ فی الطلاق عقیب الطلاق وفی الوفاۃ عقیب الوفاۃ فان لم تعلم بالطلاق او الوفاۃ حتی مضت المدۃ فقد انقضت عدتھا)؛ لان العدۃ ھی مضی الزمان، فاذا مضت المدۃ انقضت العدۃ۔(مختصر القدوری وشرحہ الجوھرۃ النیرۃ،٢٥١/٢)

یعنی،طلاق کی عدت وقتِ طلاق سے اور وفات کی عدت وقتِ وفات سے ہے، پس اگر عورت کو شوہر کے طلاق دینے یا اس کے فوت ہوجانے کی خبر نہ ہوئی یہاں تک کہ عدت گزرگئی جب بھی اس کی عدت پوری ہوگئی کیونکہ عدت ایک زمانے کے گزرنے کا نام ہے۔

   اور صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی حنفی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں:طلاق کی عدت وقتِ طلاق سے ہے اگرچہ عورت کو اس کی اطلاع نہ ہو کہ شوہر نے اُسے طلاق دی ہے اور تین حیض آنے کے بعد معلوم ہوا تو عدت ختم ہوچکی۔(بہار شریعت،٢٣٨/٢)

واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب

کتبہ:محمد اسامہ قادری

پاکستان،کراچی

جمعہ،٢٧/شعبان،١٤٤٣ھ۔٣١/مارچ،٢٠٢٢ء







ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney