مغرب پڑھ کر سو گیا تو کیا عشاء و تہجد ایک ساتھ پڑھ سکتا ہے؟


سوال نمبر 2072

 السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفٹیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ اگر زید مغرب کی نماز پڑھ کر سوگیا، رات میں تین بجے اٹھا، عشاء اور وتر کی نماز پڑھی، تو کیا فوراً تہجد کرسکتا ہے یا پھر نیند کا آنا شرط ہے۔

(سائل: محمد نعمان خورشید نصر اللہ پور کچھوچھہ)




وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔

باسمہ تعالیٰ وتقدس الجواب:

صورت مسئولہ میں نمازِ تہجد ادا نہیں ہوگی، کیونکہ نمازِ تہجد ادا ہونے کیلئے عشاء کے فرض پڑھنے کے بعد سونا ضروری ہے۔چنانچہ حدیث شریف میں ہے:

إِنَّمَا التَّهَجُّدُ الْمَرْءُ يُصَلِّي الصَّلَاةَ بَعْدَ رَقْدَةٍ۔(المعجم الکبیر للطبرانی)

یعنی،تہجد یہ ہے کہ بندہ کچھ دیر سونے کے بعد نماز ادا کرے۔

  اور علامہ سید محمد امین ابن عابدین شامی حنفی متوفی۱۲۵۲ھ لکھتے ہیں:

قد ذكر القاضي حسين من الشافعية أنه في الاصطلاح التطوع بعد النوم۔(رد المحتار علی الدر المختار)

امام قاضی حسین شافعی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:اصطلاح میں سونے کے بعد نفل پڑھنے کو تہجد کہتے ہیں۔

   اور صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی حنفی علیہ الرحمہ متوفی۱۳۶۷ھ لکھتے ہیں:نمازِ عشاء پڑھ کر سونے کے بعد جب اٹھے، تہجد کا وقت ہے اور یہ وقت طلوعِ فجر تک ہے اور بہتر وقت بعدِ نصف شب ہے اور اگر سویا نہ ہو ، تو تہجد نہیں، اگرچہ جو نفل پڑھے جائیں، صلوٰۃ اللیل انھیں شامل کہ صلوٰۃ اللیل تہجد سے عام ہے۔

(فتاویٰ امجدیہ،۲۴۳/۱)

   اور ایک مقام پر لکھتے ہیں

:صلاۃ اللیل کی ایک قسم تہجد ہے کہ عشا کے بعد رات میں سو کر اُٹھیں اور نوافل پڑھیں، سونے سے قبل جو کچھ پڑھیں وہ تہجد نہیں۔(بہارشریعت،۶۷۷/۱)

واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب

کتبہ:محمد اسامہ قادری

پاکستان،کراچی

بدھ،۱۹/شعبان،۱۴۴۳ھ۔۲۳/مارچ،۲۰۲۲ء







ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney