دو مجلس میں ایک، ایک طلاق دی تو کیا حکم ہے؟

 

سوال نمبر 2074

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ 

 کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ مذاکرۂ طلاق چل رہا تھا تو غصے کی حالت میں دو الگ الگ مجلسوں میں دونوں مرتبہ الگ الگ کنایہ کے الفاظ بیوی کو بولے، تو یہ دو طلاق بائن ہوئیں یا صرف ایک ہی طلاق بائن پڑے گی، پہلی بار کہا کہ "میرا تیرا اب کوئی رشتہ نہیں" جبکہ دوسری مجلس میں یہ کہا کہ "میری طرف سے تم اب فارغ ہو"؟

المستفتی :عمار مدنی، کراچی




وعلیکم السلام و رحمتہ اللہ و برکاتہ 

باسمہ تعالی وتقدس الجواب:

صورت مسئولہ میں پہلی بار کہے گئے الفاظ کے ذریعے ایک طلاق بائن واقع ہوگئی ہے یعنی وہ عورت اپنے شوہر کے نکاح سےخارج ہوگئی ہے، اگرچہ طلاق کی نیت نہ ہو اور دوسری بار کہے جانے والے الفاظ اگر اس نے دوبارہ طلاق دینے کی نیت سے کہے تھے، تو دوسری طلاق بائن بھی واقع ہوگئی ہے ورنہ نہیں، پس اگر مذکور شخص نے اس معاملے سے پہلے کبھی اپنی بیوی کو طلاق نہیں دی تھی، تو وہ دونوں باہمی رضامندی سے نئے مہر کے تقرر سے دوبارہ بھی نکاح کرسکتے ہیں، چاہے عدت میں کریں یا عدت کے بعد، ورنہ عدت گزرنے کے بعد وہ عورت آزاد ہوگی جہاں چاہے نکاح کرے، اس پر کوئی جبر نہیں ہے، اور یہ بھی واضح رہے کہ اگر وہ اسی عورت سے نکاح کرے گا، تو آئندہ جب بھی وہ اسے طلاق دے گا تو وہ پہلے دی جانے والی ایک یا دو طلاقوں کے ساتھ جمع ہونے کیلئے مؤثر ہوں گی یعنی اگر پہلے ایک طلاق بائن واقع ہوئی تھی تو جب بھی وہ اسے دو طلاقیں دے گا یا دو طلاق بائن واقع ہوئی تھیں تو مزید ایک طلاق دینے کی صورت میں وہ عورت اس پر حرمت مغلظہ کے ساتھ حرام ہوجائے گی کہ وہ بے حلالہ اس کیلئے ہرگز حلال نہ ہوگی یعنی حلالہ کے بغیر وہ اس سے دوبارہ نکاح نہیں کرسکے گا۔ مسئلے کہ تفصیل یہ ہے کہ پہلی بار کہے گئے الفاظ کنایہ کے ہیں اور وہ الفاظ سوال رد کرنے یا گالی کا احتمال نہیں رکھتے ہیں بلکہ جواب کیلئے متعین ہیں، اور اس وقت چونکہ مذاکرۂ طلاق بھی تھا یعنی طلاق کی بات چل رہی تھی، لہذا ایک طلاق بائن واقع ہونے کیلئے نیت کی بھی حاجت نہیں ہے۔چنانچہ علامہ نظام الدین حنفی اور علمائے ہند کی ایک جماعت نے لکھا ہے:

ولو قال لها: لا نكاح بيني وبينك، أو قال: لم يبق بيني وبينك نكاح، يقع الطلاق إذا نوی۔(الفتاوی الھندیة،375/1)

   اور جہاں تک دوسری مجلس میں کہے گئے الفاظ کا معاملہ ہے تو یاد رہے کہ فارغ کا لفظ طلاق کیلئے بطور کنایہ استعمال ہوتا ہے اور یہ الفاظ بھی گالی وغیرہ کا احتمال نہیں رکھتے ہیں، بلکہ جواب کیلئے متعین ہیں، لہٰذا یہاں بھی نیت طلاق کی حاجت نہیں ہے کیونکہ اس وقت مذاکرۂ طلاق تھا، لیکن یہاں مسئلہ یہ ہے کہ مذکور شخص اس سے قبل یعنی پہلی مجلس میں اپنی بیوی کو طلاق بائن دے چکا ہے، اور مسلمہ اصول یہ ہے کہ بائن "بائن" کو لاحق نہیں ہوتی ہے، مگر جبکہ اسے پہلی طلاق کی خبر بنانا ممکن نہ ہو، یا دوسری بار اس نے دوبارہ طلاق دینے کی نیت سے الفاظ کنایہ کہے ہوں۔چنانچہ علامہ محمد بن عبد اللہ تمرتاشی حنفی اور علامہ علاء الدین حصکفی حنفی لکھتے ہیں:

(لَا) يَلْحَقُ الْبَائِنُ (الْبَائِنُ) إذَا أَمْكَنَ جَعْلُهُ إخْبَارًا عَنْ الْأَوَّلِ: كَأَنْتِ بَائِنٌ بَائِنٌ، أَوْ أَبَنْتُكِ بِتَطْلِيقَةٍ فَلَا يَقَعُ لِأَنَّهُ إخْبَارٌ فَلَا ضَرُورَةَ فِي جَعْلِهِ إنْشَاءً، بِخِلَافِ أَبَنْتُك بِأُخْرَى أَوْ أَنْتِ طَالِقٌ بَائِنٌ، أَوْ قَالَ نَوَيْتُ الْبَيْنُونَةَ الْكُبْرَى لِتَعَذُّرِ حَمْلِهِ عَلَى الْإِخْبَارِ فَيُجْعَلُ إنْشَاءً۔(تنویر الابصار وشرحہ الدر المختار،ص1590۔1592)

   اور صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی حنفی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں:بائن بائن کو لاحق نہیں ہوتی جبکہ یہ ممکن ہو کہ دوسری کو پہلی کی خبر دینا کہہ سکیں مثلاً پہلے کہا تھا کہ تو بائن ہے اس کے بعد پھر یہی لفظ کہا تو اس سے دوسری واقع نہ ہوگی کہ یہ پہلی طلاق کی خبر ہے یا دوبارہ کہا میں نے تجھے بائن کر دیا اور اگر دوسری کو پہلی سے خبر دینا نہ کہہ سکیں مثلاً پہلے طلاق بائن دی پھر کہا میں نے دوسری بائن دی تو اب دوسری پڑے گی۔ یوہیں پہلی صورت میں بھی دو واقع ہونگی جبکہ دوسری سے دوسری طلاق کی نیت ہو۔

(بہار شریعت،131/2)

   اور الفاظ کنایہ سے وقوع طلاق کی شرط بیان کرتے ہوئے علامہ تمرتاشی اور علامہ حصکفی لکھتے ہیں:

الْكِنَايَاتُ (لَا تَطْلُقُ بِهَا) قَضَاءً (إلَّا بِنِيَّةٍ أَوْ دَلَالَةِ الْحَالِ) وَهِيَ حَالَةُ مُذَاكَرَةِ الطَّلَاقِ أَوْ الْغَضَبِ فَالْحَالَاتُ ثَلَاثٌ: رِضًا وَغَضَبٌ وَمُذَاكَرَةٌ وَالْكِنَايَاتُ ثَلَاثٌ مَا يَحْتَمِلُ الرَّدَّ أَوْ مَا يَصْلُحُ لِلسَّبِّ، أَوْ لَا وَلَا (فَفِي حَالَةِ الرِّضَا) أَيْ غَيْرِ الْغَضَبِ وَالْمُذَاكَرَةِ (تَتَوَقَّفُ الْأَقْسَامُ) الثَّلَاثَةُ تَأْثِيرًا (عَلَى نِيَّةٍ وَفِي الْغَضَبِ) تَوَقَّفَ (الْأَوَّلَانِ) إنْ نَوَى وَقَعَ وَإِلَّا لَا (وَفِي مُذَاكَرَةِ الطَّلَاقِ) يَتَوَقَّفُ (الْأَوَّلُ فَقَطْ) وَيَقَعُ بِالْأَخِيرَيْنِ وَإِنْ لَمْ يَنْوِ لِأَنَّ مَعَ الدَّلَالَةِ لَا يُصَدَّقُ قَضَاءً فِي نَفْيِ النِّيَّةِ۔ملخصا(تنویر الابصار وشرحہ الدر المختار،ص1578۔1584)

   اور صدر الشریعہ علیہ الرحمہ لکھتے ہیں:کنایہ سے طلاق واقع ہونے میں یہ شرط ہے کہ نیت طلاق ہو یا حالت بتاتی ہو کہ طلاق مراد ہے یعنی پیشتر طلاق کا ذکر تھا یا غصہ میں کہا۔ کنایہ کے الفاظ تین طرح کے ہیں۔ بعض میں سَوال رد کرنے کا احتمال ہے، بعض میں گالی کا احتمال ہے اور بعض میں نہ یہ ہے نہ وہ، بلکہ جواب کے لیے متعین ہیں۔ اگر رد کا احتمال ہے تو مطلقاً ہر حال میں نیت کی حاجت ہے بغیر نیتِ طلاق نہیں اور جن میں گالی کا احتمال ہے اُن سے طلاق ہونا خوشی اور غضب میں نیت پر موقوف ہے اور طلاق کا ذکر تھا تو نیت کی ضرورت نہیں اور تیسری صورت یعنی جو فقط جواب ہو تو خوشی میں نیت ضروری ہے اور غضب و مذاکرہ کے وقت بغیر نیت بھی طلاق واقع ہے۔

(بہار شریعت،128/2۔129)

   اور یہاں مذکورہ صورت میں دوسری مجلس میں کہے گئے الفاظ کو پہلی طلاق کی خبر قرار دینا ممکن ہے، لہٰذا دوسری طلاق بائن کے وقوع کا حکم نہیں دیں گے مگر جبکہ اس نے وہ الفاظ دوسری طلاق دینے کی نیت سے کہے ہوں۔

   اور جب کوئی شخص اپنی بیوی کو ایک یا دو طلاق بائن دے تو وہ(سابقہ شوہر) اس سے دوران عدت اور بعد عدت دوبارہ بھی نکاح کرسکتا ہے جبکہ وہ عورت راضی ہو ورنہ نہیں۔چنانچہ امام ابو الحسن احمد بن محمد قدوری حنفی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں:

وان کان الطلاقاً بائناً دون الثلاث فلہ ان یتزوجھا فی عدتھا وبعد انقضاء عدتھا۔

(مختصر القدوری،ص327)

واللہ تعالی اعلم بالصواب

کتبہ:محمد اسامہ قادری

پاکستان،کراچی

بدھ،12/شعبان المعظم،1443ھ۔16/مارچ،2022ء







ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney