شوہر نے کہا،، اب،، موٹر سائیکل پر بیٹھو تو تم کو طلاق. تو کیا طلاق پڑ جائے گی؟


سوال نمبر 2089

 السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ۔

الاستفتاء:کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ زید نے دوا لانے کے لئے چلتے وقت اپنی بیوی سے کہا کہ موٹر سائیکل پر بیٹھو، لیکن کسی وجہ سے بیوی نے بیٹھنے سے منع کیا، ایسی صورت میں زید نے غصے میں آکر اپنی بیوی سے کہا کہ اب موٹر سائیکل پر بیٹھو تو تمہیں طلاق ہے۔ بیوی کا کہنا کہ اس کے بعد بھی پہلے کی طرح آج تقریبا پانچ سال سے ہم دونوں ساتھ میں رہتے آرہے ہیں۔ واضح رہے کہ عورت گاڑی پر بیٹھی نہیں تھی۔ تو ایسی صورت میں شریعت کا کیا حکم ہم پر لگے گا؟

(سائل:عبد المومن قادری، نانپارہ، بہرائچ شریف)




وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ۔

باسمہ تعالیٰ وتقدس الجواب:

صورت مسئولہ میں اگر وہ عورت شوہر کے مذکور جملہ کہنے کے بعد کبھی بھی اس کی موٹر سائیکل پر نہیں بیٹھی ہے، تو اس پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی ہے ورنہ ایک طلاق رجعی واقع ہوگئی ہے اگرچہ وہ متعدد(کئی) بار اس کی موٹر سائیکل پر بیٹھی ہو، اور اس صورت میں شوہر کو عدت کے اندر اسے اپنے نکاح میں پھیرنے کا حق حاصل تھا، پس اگر وہ دونوں شرط پائے جانے کے بعد بھی ساتھ ہی میں رہ رہے تھے، جیسا کہ سوال سے ظاہر ہے، تو اس سے بھی رجوع واقع ہوگیا ہے، لہٰذا وہ دونوں حسب سابق میاں بیوی کی حیثیت سے ہیں، بشرطیکہ شوہر نے اس سے پہلے کبھی اسے طلاق نہ دی ہو، اور اس صورت میں اسے صرف دو طلاقوں کا اختیار باقی رہے گا یعنی آئندہ جب بھی وہ اسے دو طلاقیں دے گا، تو وہ عورت اس پر حرمت مغلظہ کے ساتھ حرام ہوجائے گی کہ حلالہ کے بغیر اس کیلئے ہرگز حلال نہیں ہوگی۔مسئلے کی تفصیل یہ ہے کہ طلاق کو جب کسی شرط پر معلق کیا جائے، تو اس کے پائے جانے پر طلاق واقع ہوجاتی ہے۔چنانچہ 

علامہ ابو الحسن احمد بن محمد قدوری حنفی متوفی۴۲۸ھ لکھتے ہیں:واذا اضافہ الی شرط وقع عقیب الشرط، مثل ان یقول لامراتہ: ان دخت الدار فانت طالق۔

(مختصر القدوری،ص۳۲۰)

یعنی، اور جب کوئی طلاق کی اضافت شرط کی طرف کرے، تو شرط پائے جانے کے بعد طلاق واقع ہوجائے گی، جیسے کوئی شخص اپنی بیوی کو کہے کہ اگر تو گھر میں داخل ہوئی تو تجھے طلاق ہے۔

   اور تعلیق کے معنی وغیرہ کے بارے میں صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی حنفی علیہ الرحمہ متوفی۱۳۶۷ھ لکھتے ہیں:تعلیق کے معنی یہ ہیں کہ کسی چیز کا ہونا دوسری چیز کے ہونے پر موقوف کیا جائے یہ دوسری چیز جس پر پہلی موقوف ہے اس کو شرط کہتے ہیں۔

(بہار شریعت،۱۴۹/۲)

   اور یہاں شوہر نے اپنے جملے میں "اب" کا لفظ استعمال کیا ہے، جو عرف عام میں آئندہ کیلئے استعمال ہوتا ہے جیسے کوئی شخص جب کسی کو مخاطب کرکے کہے کہ اب تم نے ایسا کیا تو تمہیں سخت سزا ملے گی، تو اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ اگر آئندہ تم نے ایسا کیا، تو تمہیں سخت سزا ملے گی اور فقہائے کرام نے مستقبل کیلئے استعمال ہونے والے الفاظ کو الفاظ شرط میں شمار فرمایا ہے جیسے لفظ "جب" وغیرہ۔چنانچہ علامہ نظام الدین حنفی متوفی۱۱۶۱ھ اور علمائے ہند کی ایک جماعت نے لکھا ہے:الفاظ الشرط ان واذا واذاما وکل و کلما ومتی ومتی ما۔(الفتاوی الھندیة،۴۱۵/۱)

یعنی،الفاظ شرط یہ ہیں:ان، اذا، اذاما، کل، کلما، متی، متی ما۔

   اور صدر الشریعہ علیہ الرحمہ لکھتے ہیں:حروف شرط اُردو زبان میں یہ ہیں۔ اگر، جب، جس وقت، ہر وقت، جو، ہر، جس، جب کبھی، ہر بار۔

(بہار شریعت،۱۵۰/۲)

   اور شوہر نے چونکہ صریح الفاظ کے ذریعے طلاق کو معلق کیا تھا، لہٰذا شرط پائے جانے پر اس کی بیوی کو ایک طلاق رجعی واقع ہوگی۔چنانچہ 

امام عبد اللہ بن احمد نسفی حنفی متوفی۷۱۰ھ لکھتے ہیں:الطلاق الصریح۔۔۔فیقع واحدۃ رجعیۃ وان نوی الاکثر او الابانۃ او لم ینو شیئاً۔(کنز الدقائق،۴۰۲/۱۔۴۰۳)

یعنی،طلاق کے صریح الفاظ سے ایک طلاق رجعی واقع ہوگی اگرچہ ایک سے زائد یا بائن کی نیت ہو یا کچھ نیت نہ کی ہو۔

   اور ایک بار شرط پائے جانے پر تعلیق ختم ہوجاتی ہے جبکہ عموم کا لفظ استعمال نہ کیا ہو۔چنانچہ علامہ نظام الدین حنفی اور علمائے ہند کی ایک جماعت نے لکھا ہے:

وجود الفعل مرة تم الشرط وانحلت الیمین فلا یتحقق الحنث بعدہ الا فی کلما لانھا توجب عموم الافعال۔(الفتاوی الھندیة،۴۱۵/۱)

یعنی،ایک مرتبہ فعل پائے جانے پر شرط پوری مکمل ہوجائے گی اور قسم پوری ہوجائے گی، لہٰذا دوبارہ شرط پائی جانے سے قسم نہیں ٹوٹے گی سوائے جب کبھی میں، کیونکہ یہ لفظ عموم افعال کے واسطے آتا ہے۔

   اور یہاں مذکورہ صورت میں "اب" کا لفظ مداومت یعنی ہمیشہ کیلئے استعمال نہیں ہوتا ہے، لہٰذا ایک مرتبہ شرط پائے جانے پر تعلیق ختم ہوجائے گی، پس اگر وہ عورت اب تک اپنے شوہر کی موٹر سائیکل پر نہیں بیٹھی ہے، تو آئندہ جب بھی بیٹھے گی، اُس پر ایک طلاق رجعی واقع ہوجائے گی، اور پھر جب بھی وہ اُس کی موٹر سائیکل پر بیٹھے گی، تو اُس پر مزید طلاقیں واقع نہیں ہوں گی۔

واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب

کتبہ:محمد اسامہ قادری

پاکستان،کراچی

منگل،۱۸/شعبان،1443ھ۔۲۲/مارچ،۲۰۲۲ء







ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney