طلاق پر شک ہو جائے تو؟


 سوال نمبر 2114

السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ

الاستفتاء: کیا فرماتے ہیں علماٸے دین ومفتیانِ شرع متین اس مسئلہ میں کہ اگر شوہر کو تعدادِ طلاق میں شک ہو، تو کیا کریں۔ حوالہ کے ساتھ جواب عنایت فرماٸیں۔ 

(سائل اشرف، کرناٹک) 




وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ۔

باسمہ تعالیٰ وتقدس الجواب:

اس صورت میں کم کا اعتبار کریں گے مثلاً ایک یا زیادہ طلاقیں دینے میں شک ہے، تو ایک ہی طلاق مانی جائے گی، ہاں اگر شوہر کو دو یا تین میں سے جس طرف غالب گمان(زیادہ خیال) ہے، تو پھر اُسی کا اعتبار کیا جائے گا۔ چنانچہ علامہ علاء الدین حصکفی حنفی متوفی١٠٨٨ھ اور علامہ سید محمد امین ابن عابدین شامی حنفی متوفی١٢٥٢ھ لکھتے ہیں:وَلَوْ شَكَّ أَطَلَّقَ وَاحِدَةً أَوْ أَكْثَرَ (بَنَى عَلَى الْأَقَلِّ) أَيْ كَمَا ذَكَرَهُ الْإِسْبِيجَابِيُّ، إلَّا أَنْ يَسْتَيْقِنَ بِالْأَكْثَرِ أَوْ يَكُونَ أَكْبَرَ ظَنِّهِ۔

(الدر المختار ورد المحتار،ص١٥٦٥)


   اور صدر الشریعہ محمد امجد علی اعظمی حنفی متوفی١٣٦٧ھ لکھتے ہیں:اس میں شک ہے کہ ایک(طلاق) دی ہے یا زیادہ تو قضاءً ایک ہے دیانةً زیادہ۔ اور اگر کسی طرف غالب گمان ہے تو اُسی کا اعتبار ہے اور اگر اس کے خیال میں زیادہ ہے مگر اسی مجلس میں جو لوگ تھے وہ کہتے ہیں کہ ایک دی تھی اگر یہ لوگ عادل ہوں اور اِس بات میں انہیں سچا جانتا ہو تو اعتبار کرلے۔ *(بہار شریعت،١٢٥/٢)* 

واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب 

کتبہ:

محمد اُسامہ قادری

پاکستان،کراچی

منگل،٢٣/شوال،١٤٤٣ھ۔٢٥/مئی،٢٠٢٢ء







ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney