کیا محدود فی القذف کی گواہی قبول ہوگی؟


سوال نمبر 2125

 السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ

الاستفتاء: کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس کے بارے میں کہ جس پر تہمت زنا کی حد جاری ہوچکی ہو اسے کیا کہتے ہیں نیز کیا اس کی گواہی قبول ہوتی ہے؟ اس بارے میں بحوالہ رہنماٸی فرمادیں جزاك اللہ۔ 

(سائل:رضا، کراچی)




وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ۔

باسمہ تعالیٰ وتقدس الجواب:

 ایسے شخص کو "محدود فی القذف" کہتے ہیں اور اس کی گواہی کبھی مقبول نہیں ہوتی ہے۔چنانچہ قرآنِ کریم میں ہے:

وَ الَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ ثُمَّ لَمْ یَاْتُوْا بِاَرْبَعَةِ شُهَدَآءَ فَاجْلِدُوْهُمْ ثَمٰنِیْنَ جَلْدَةً وَّ لَا تَقْبَلُوْا لَهُمْ شَهَادَةً اَبَدًا۔ (النور:٢٤/٤)

ترجمہ،اور جو پارسا عورتوں کو عیب لگائیں پھر چار گواہ معائنہ کے نہ لائیں تو انہیں اسّی کوڑے لگاؤ اور ان کی کوئی گواہی کبھی نہ مانو۔ 

(کنز الایمان)

    اور صدر الشریعہ محمد امجد علی اعظمی حنفی علیہ الرحمہ متوفی١٣٦٧ھ لکھتے ہیں:جس شخص پر حد قذف قائم کی گئی اوس کی گواہی کسی معاملہ میں مقبول نہیں ہاں عبادات میں قبول کرلیں گے۔

(بہار شریعت،٤٠١/٢۔٤٠٢)

واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب

کتبہ: 

محمد اُسامہ قادری

پاکستان،کراچی

جمعرات،٢/ذو القعدة،١٤٤٣ھ۔٢/جون،٢٠٢٢







ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney