سوال نمبر 2130
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
الاستفتاء: کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین اس مسئلے میں کہ خالد کے سات بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں جن میں ایک بیٹا اپنے والد خالد کی موجودگی میں انتقال کرگیا، اس مرحوم بیٹے کی بیوی نے بعدِ عدت اپنے دیور یعنی اس مرحوم کے بھائی سے شادی کرلی، اب دریافت یہ کرنا ہے کہ اس مرحوم کی بیوی کو وراثت میں کتنا حصہ ملے گا؟ از روئے شرع مطلع فرمائیں، نوازش ہوگی۔
(سائل:محمد زاہد، مظفر پور، بہار)
وعلیکم السلام و رحمتہ اللہ و برکاتہ
باسمہ تعالیٰ وتقدس الجواب:
صورتِ مسئولہ میں مرحوم بیٹے کی بیوہ کا اپنے سسر کی جائیداد میں کوئی حق نہیں ہے۔چنانچہ امام احمد رضا خان حنفی متوفی١٣٤٠ھ لکھتے ہیں::داماد یا خُسر(سسر) ہونا اصلاً کوئی حق وراثت ثابت نہیں کرسکتا خواہ دیگر ورثاء موجود ہوں یا نہ ہوں ہاں اگر اور رشتہ ہے تو اس کے ذریعہ سے وراثت ممکن ہے مثلاً داماد بھتیجا ہے خسر چچا ہے تواس وجہ سے باہم وراثت ممکن ہے ایک شخص مرے اور دو وارث چھوڑے ایک دختر اور ایک بھتیجا کہ وہی اس کا داماد ہے تو داماد بوجہ برادر زادگی
(یعنی بھائی کا بیٹا ہونے کی وجہ سے)
نصف مال پائے گا اور اگر اجنبی ہے تو کُل مال دختر(یعنی،بیٹی) کو ملے گا داماد کا کچھ نہیں۔
(فتاوی رضویہ،کتاب الفرائض،٣٣١/٢٦)
اور اِسی طرح مرحوم کی زندگی میں انتقال کرنے والے بیٹے کا بھی اپنے والد کی جائیداد میں کوئی حصہ نہیں ہے، کیونکہ مستحقِ وراثت ہونے کیلئے ضروری ہے کہ وارث اپنے مُورِث کی وفات کے وقت زندہ ہو۔چنانچہ علامہ سید محمد امین ابن عابدین شامی حنفی متوفی۱۲۵۲ھ لکھتے ہیں:وشروطہ ثلاثۃ۔۔۔وجود وارثہ عند موتہ حیاً حقیقۃ او تقدیراً کالحمل۔
(رد المحتار،کتاب الفرائض،ص۴۲۰۰)
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
کتبہ:
محمد اُسامہ قادری
پاکستان، کراچی
منگل، ٧/ذو القعدة،١٤٤٣ھ۔٧/جون،٢٠٢٢ء
0 تبصرے