حج کرنے سے بھی کون کون سے گناہ معاف نہیں ہوتے ہیں؟


سوال نمبر 2269

 السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ کیا حج کرنے سے قضا نمازیں بھی معاف ہو جاتی ہیں اور کیا حقوق العباد بھی معاف ہو جاتے ہیں کیونکہ یہ مشہور ہے کہ حج کرنے سے انسان ایسا ہو جاتا ہے جیسے اس نے ابھی ابھی ماں کے پیٹ سے جنم لیا ہے یعنی کوئی گناہ نہیں کیا ہے

المستفتی عبد السلام حیدرآباد




وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

الجواب بعون الملک العزیز الوہاب

حج ادا کر لینے سے نہ نماز و روزہ معاف ہوتے ہیں اور نہ حقوق العباد کہ وہ نماز ادا ہی نہ کرے یا جس کا حق ہے وہ ادا نہ کرے ہاں حج کے بعد فرائض اداکرلے اور حق والوان یا حق یاانکے وارثین کودےدے تو ان سب کی ادائیگی میں جو تاخیرہوئی ہے اس تقصیر و معاصی صغیرہ کو دھو دیتا ہے 

 جیسا کہ حج سے گناہوں کی معافی کے بارے میں اعلی حضرت امام احمد رضا بریلوی علیہ الرحمۃ والرضوان اپنے رسالہ مبارکہ " اعجب الامداد" میں تحریر فرماتے ہیں کہ


 جس نے پاک مال؛ پاک کمائی؛ پاک نیت سے حج کیا اور اس میں لڑائی جھگڑا نیز ہر قسم کے گناہوں اور نافرمانی سے بچا پھر حج کے بعد فورا مر گیا اتنی مہلت نہ ملی کہ جو حقوق اللہ حقوق العباد اس کے ذمہ تھے انہیں ادا کرتا یا ادا کرنے کی فکر کرتا تو حج قبول ہونے کی صورت میں امید قوی ہے کہ اللہ تعالی اپنے تمام حقوق معاف کر دے اور حقوق العباد کو اپنے ذمہ کرم پر لے کر حق بالوں کو قیامت کے دن راضی کرے اور خصومت سے نجات بخشے۔ اور اگر حج کے بعد زندہ رہا اور حتی الامکان حقوق کا تدارک کر لیا یعنی سالہاے گذشتہ کی ما بقی زکوٰۃ ادا کر دی؛ چھوٹی ہوئی نماز اور روزہ کی قضا کی؛ جس کا حق مار لیا تھا اس کو یاد آنے کے بعد اس کے وارثین کو دے دیا؛ جسے تکلیف پہنچائی تھی معاف کرا لیا جو صاحب حق نہ رہا اس کی طرف سے صدقہ کر دیا اگر حقوق اللہ اور حقوق العباد میں سے ادا کرتے کرتے کچھ رہ گیا تو موت کے وقت اپنے مال میں سے ان کی ادائیگی کی وصیت کرگیا۔ خلاصہ یہ کہ حقوق اللہ اور حقوق العباد سے چھٹکارے کی ہر ممکن کوشش کی تو اس کے لیے بخشش کی اور زیادہ امید ہے ۔ ہاں اگر حج کے بعد قدرت ہونے کے باوجود ان امور سے غفلت برتی کیا انہیں ادا نہ کیا تو یہ سب گناہ از سر نو اس کے ذمہ ہوں گے اس لیے کہ حقوق اللہ اور حقوق العباد تو باقی ہی تھے ان کی ادائیگی میں تاخیر کرنا پھر تازہ گناہ ہوا جس کے ازالہ کے لیے وہ حج کافی نہ ہوگا اس لئے کہ حج گزرے ہوئے گناہوں یعنی وقت پر نماز و روزہ وغیرہ ادا نہ کرنے کی تقصیر کو دھوتا ہے۔ حج سے قضا شدہ نماز اور روزہ ہرگز نہیں معاف ہوتے اور نہ آئندہ کے لئے پروانۂ آزادی ملتا ہے۔ اھ 


اور حضرت علامہ ابن عابدین شامی رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ تحریر فرماتے ہیں 


ان الھجرة والحج لا یکفران المظالم و لا یقطع فیہا بمحو الکبائر و انما یکفران الصغائر  


بے شک ھجرت اور حج مظالم اور کبیرہ گناہوں کو نہیں مٹاتا بلکہ وہ صغیرہ گناہوں کو ختم کرتے ہیں 





بحوالہ فتاویٰ فیض الرسول جلد اول صفحہ ۵۴۵ مطبوعہ دار الاشاعت فیض الرسول


لہذا وہ گناہ کبیرہ کہ جن کی ادائیگی کے بعد توبہ لازم ہے تو ان کو ادا کرے اور توبہ کرے رہے حقوق العباد تو جن بندوں کے حق کے لیے ہیں ان کو ان تک پہنچائے اور ان سے معافی کا طلب گار بھی ہو اس امید پر نہ بیٹھ رہے کہ حج کرلیا ہمارے سارے گناہ معاف ہو گئے یہ خام خیالی کے سوا کچھ نہیں


واللہ تعالی اعلم


 ابو عبداللہ محمد ساجد چشتی شاہجہاں پوری خادم مدرسہ دارارقم محمدیہ میر گنج بریلی شریف







ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney