نفل نماز میں بیٹھ کر پڑھنے سے رکوع میں کس حد تک جھکنا چاہیے؟

  (سوال نمبر 2242)

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔

الاستفتاء:کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ نفل نماز میں بیٹھ کر پڑھنے سے رکوع میں کس حد تک جھکنا چاہیے؟
(سائل:محمد نوشاد رضا نوری)

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ۔
باسمہ تعالیٰ وتقدس الجواب:رکوع میں واجب مقدار تو صرف اس قدر ہے کہ سرجھکائے اور ساتھ پیٹھ کو کچھ جھکائے چاہے کھڑے ہوکر نماز پڑھے یا بیٹھ کر کہ یہ رکوع کا ادنیٰ درجہ ہے لہٰذا اِس کے بغیر رکوع ہی ادا نہیں ہوگا مگر بیٹھ کر نماز پڑھے تو رکوع کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ پیشانی جھک کر گھٹنوں کے مقابل یعنی برابر آجائے اور اِس سے زائد جھکنا مکروہ تنزیہی ہے۔چنانچہ علامہ سید محمد امین ابن عابدین شامی حنفی متوفی١٢٥٢ھ لکھتے ہیں:وفي حاشية الفتال عن البرجندي: ولو كان يصلي قاعدا ينبغي أن يحاذي جبهته قدام ركبتيه ليحصل الركوع. اهـ. قلت: ولعله محمول على تمام الركوع، وإلا فقد علمت حصوله بأصل طأطأة الرأس أي مع انحناء الظهر تأمل۔(رد المحتار علی الدر المختار)

یعنی،برجندی کے حوالے سے حاشیہ فتال میں ہے کہ اگر کوئی بیٹھ کر نماز پڑھے تو اپنی پیشانی کو گھٹنوں کے برابر جھکائے تاکہ رکوع حاصل ہوجائے اھ (علامہ شامی فرماتے ہیں) میں کہتا ہوں کہ شاید یہ کامل رکوع پر محمول ہو کیونکہ آپ جان چکے ہیں کہ رکوع سر کو صرف جھکا دینے سے یعنی ساتھ کچھ پیٹھ کو جھکانے سے ادا ہوجاتا ہے، غور کرو۔
   اور امام احمد رضا خان حنفی متوفی١٣٤٠ھ لکھتے ہیں:رکوع میں قدر واجب تو اسی قدر ہے کہ سرجھکائے اور پیٹھ کو قدرے خم دے مگر بیٹھ کر نماز پڑھے تو اسکا درجہ کمال و طریقہ اعتدال یہ ہے کہ پیشانی جھک کر گھٹنوں کے مقابل آجائے اس قدر کے لئے سرین اٹھانے کی حاجت نہیں تو قدر اعتدال سے جس قدر زائد ہوگا وہ عبث و بیجا میں داخل ہو جائے گا اور نماز میں جو ایسا فعل کیا جائے گا لااقل(یعنی کم از کم) ناپسند مکروہ تنزیہی ہوگا۔(فتاوی رضویہ،٣٦/٦)واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب 

کتبہ
محمد اُسامہ قادری
پاکستان، کراچی
جمعرات،٢٥/صفر،١٤٤٤ھ۔٢٢/ستمبر،٢٠٢٢ء








ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney