پانچ پزار دیا کی چادر فروخت کرو ہر چار پر تین روپیہ لونگا تو کیا حکم ہے؟

(سوال نمبر 2248)

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
علمائے کرام کی بارگاہ میں ایک سوال عرض ہے کہ
زید چادر کا کاروبار کرتا ہے ا س نے بکر کو کام کرنے کے لئے پچاس ہزار  50000 روپیے اس شرط پر دیۓ کے ان روپیوں کی جتنی بھی چادریں ملےان کو فروخت کرو اور ہرچادر پرتین روپیے نفع میں لوں گا اور باقی نفع تمہارا لہذا زید اور بکر کا یہ طریقہ کیسا ہے؟جواب دے کر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں
سائل محمد اظہر الدین عظیمی بہار کھگڑیا پھولتوڑا

وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
 الجواب بعون الملک الوہاب 

صورت مذکورہ فی السوال بیع مضاربہ کی صورت ہے اور  مضاربہ دو شریکوں کے درمیان کسی مال نفع پر عود شرکت ہے کہ ایک کی جانب سے مال ہو اور دوسرے کی جانب سے عمل  ، جس کا مال ہو اس کو رب المال اور عامل کو مضارب کہتے ہیں  اس کے لئے شرط ہے کہ رب المال اور مضارب کے درمیان نفع واضح ہو چاہے نصف نصف پر یا ثلث وغیرہ پر  نہ یوں کہ  رب المال اپنے لئے کچھ نفع متعین کر لے بعدہ نفع کی تقسیم کرے یا تقسیم نہ کرے  جیسا کہ مختصر القدوری میں ہے 
و من شرطھا ( المضاربۃ) ان یکون الربح بینھما مشاعا لا یستحق احدھما منہ دراھم مسماۃ  ۔ اھ (صفحہ نمبر 98 کتاب المضاربۃ مطبوعہ مجلس البرکات )
ہاں اتنا ضرور ہے کہ رب المال جس شہر یا جس چیز میں بیع کرنے کا حکم دیا مضارب اسی میں بیع کرے اس کے سوا میں جائز نہیں کما قال الامام ابو الحسین احمد بن محمد بن احمد القدوری البغدادی رحمہ اللہ تعالی۔ 
و ان خص لہ ( للمضارب) رب المال التصرف فی بلد بعینہ او فی سلعۃ بعینھا لم یجز لہ ان یتجاوز عن ذلک ۔ اھ(مختصر القدوری صفحہ نمبر 99  مطبوعہ مجلس البرکات )

لہذا اپنے لیے ہر پیس پر  نفع کی تعیین کر لینا نفع ہو یا نہ ہو اس سے غرض نہ رکھنا یہ نفع میں شرکت کی عمومیت کے منافی ہے  اس لیے صورت مذکورہ فی السوال جائز نہیں ہے۔ و اللہ اعلم 

کتبہ
ابو عبداللہ محمد ساجد چشتی
 شاہجہاں پوری خادم مدرسہ دارارقم محمدیہ میر گنج بریلی شریف








ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney