تین بار کہا تجھے چھٹی دی تو کیا حخم ہے؟

 السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ۔
الاستفتاء:کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین اس مسئلہ میں کہ زید اور ہندہ میں جھگڑا ہورہا تھا اسی درمیان زید نے اپنی بیوی ہندہ سے کہا کہ میں نے تجھے چھٹی دی اور تین بار کہا، اب ہندہ پر کون سی طلاق واقع ہوئی ہے، دوبارہ نکاح میں رکھنے کیلئے کیا حلالہ کی ضرورت ہوگی؟ جواب عنایت فرمائیں، عین نوازش ہوگی۔
(سائل:محمد اسلم، گرام کھریا پنڈری، ضلع پیلی بھیت)

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ۔
باسمہ تعالیٰ وتقدس الجواب:برتقدیر صدقِ سائل زید کی زوجہ مسمات ہندہ پر ایک طلاقِ بائن واقع ہوگئی ہے لہٰذا یہ دونوں چاہیں تو دوبارہ نئے مہر کے ساتھ نکاح کرسکتے ہیں، حلالہ وغیرہ کی ضرورت نہیں ہے۔ مسئلے کی تفصیل یہ ہے کہ لفظِ چھٹی طلاق کے کنایہ الفاظ سے ہے کیونکہ یہ لفظ طلاق کا احتمال رکھتا ہے۔چنانچہ علامہ حسن بن منصور اوزجندی حنفی متوفی٥٩٢ھ لکھتے ہیں:الکنایة ما یحتمل الطلاق ولا یکون الطلاق مذکورا نصا۔(فتاوی قاضیخان علی ھامش الھندیة،٤٦٧/١)

یعنی،طلاق کے الفاظِ کنایہ وہ ہیں جو طلاق کا احتمال رکھتے ہوں لیکن صراحت کے ساتھ لفظ طلاق مذکور نہ ہو۔

   اور لفظِ چھٹی چونکہ جواب کیلٸے متعین ہے لہٰذا حالتِ رضا کے علاوہ مثلاً جھگڑے وغیرہ کے دوران وقوعِ طلاق کیلئے نیت کی بھی حاجت نہیں ہے۔چنانچہ علامہ علاء الدین حصکفی حنفی متوفی١٠٨٨ھ اور علامہ سید محمد امین ابن عابدین شامی حنفی متوفی١٢٥٢ھ لکھتے ہیں:(الکنایات ثلاث ما یحتمل الرد او ما یصلح للسب او لا ولا) الثالث یتوقف علیھا فی حالة الرضا فقط، ویقع حالة الغضب والمذاکرة بلا نیة۔ملخصًا(الدر المختار وشرحہ رد المحتار،٢٩٨/٣۔٣٠١)

یعنی،کنایہ کے الفاظ تین طرح کے ہیں۔ بعض میں سوال رد کرنے کا احتمال ہے، بعض میں گالی کا احتمال ہے اور بعض میں نہ یہ ہے نہ وہ، بلکہ جواب کے لیے متعین ہیں تیسری صورت یعنی جو فقط جواب ہو تو خوشی میں نیت ضروری ہے اور غضب و مذاکرہ کے وقت بغیر نیت بھی طلاق واقع ہے۔ملخصًا(بہار شریعت،١٢٨/٢۔١٢٩)

   اور پھر شوہر کے دوسری اور تیسری بار بھی بیوی کو یہی جملہ کہنے سے اس پر مزید طلاقیں واقع نہیں ہوئی ہیں کیونکہ بائن، بائن کے ساتھ جمع نہیں ہوتی ہے مگر جبکہ اسے پہلی کی خبر بنانا ممکن نہ ہو۔چنانچہ علامہ محمد بن عبد اللہ تمرتاشی حنفی متوفی١٠٠٤ھ اور علامہ حصکفی لکھتے ہیں:(لا) یلحق البائن (البائن) اذا امکن جعلہ اخبارا عن الاول: کانت بائن بائن، او ابنتک بتطلیقة فلا یقع لانہ اخبار فلا ضرورة فی جعلہ انشاء، بخلاف ابنتک باخری او قال نویت البینونة الکبری لتعذر حملہ علی الاخبار فیجعل انشاء۔(تنویر الابصار وشرحہ الدر المختار،٣٠٨/٣۔٣١٠)

یعنی،بائن، بائن کو لاحق نہیں ہوتی ہے جبکہ اسے پہلی کی خبر قرار دینا ممکن ہو مثلاً تو بائن بائن ہے یا میں نے تجھے طلاقِ بائنہ دی ہے تو دوسری طلاقِ بائن واقع نہ ہوگی کیونکہ یہ خبر دینا ہے لہٰذا اس کو انشاء بنانے کی ضرورت نہیں ہے، اس کے برخلاف جب وہ یوں کہے کہ میں نے تجھے دوسری طلاقِ بائن دی یا کہے کہ میں نے بڑی بائنہ کی نیت کی ہے تو اس صورت مں اسے خبر قرار دینا درست نہیں ہوسکتا ہے لہٰذا اس کو انشاء ہی ماننا پڑے گا۔واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب

کتبہ:۔
محمد اُسامہ قادری
پاکستان، کراچی
اتوار،٥/ربیع الاول،١٤٤٤ھ۔٢/اکتوبر،٢٠٢٢ء







ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney