تین بار کہا ہمارا تمہارا کو ئی رشتہ نہیں نیز صریح طلاق بھی دیا تو کیا حکم ہے؟

(سوال 2265)

 الاستفتاء:کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین اس مسئلہ میں کہ زید نے اپنی بیوی ہندہ سے لڑائی جھگڑا کرتے ہوئے غصہ کی حالت میں زبان سے بھی اور موبائل میں میسیج لکھ کر کہا:تمہارا ہمارا کوئی رشتہ نہیں، اب میرا تمہارا رشتہ ختم، میرا تمہارا کوئی رشتہ نہیں، میرے سے سب رشتہ ختم کردو اور تمہارا مجھ سے کوئی واسطہ نہیں، واضح رہے کہ زید نے مذکور جملوں کو لکھنے اور کہنے کے چند دنوں کے بعد ایک مرتبہ صریح لفظ یعنی میں نے تجھے ایک طلاق دیا سے بھی طلاق دیا ہے، لہٰذا دریافت طلب یہ ہے کہ لڑائی جھگڑا کرتے وقت غصہ کی حالت میں مذکور جملوں سے طلاق پڑے گی یا نہیں اور پڑے گی تو کتنی؟ قرآن وحدیث اور مسائلِ فقہیہ کی روشنی میں مفصل جواب عنایت فرمائیں۔
(سائل:حافظ عبد اللہ انصاری، نیو ممبئی)

باسمہ تعالیٰ وتقدس الجواب:برتقدیر صدقِ سائل زید کی زوجہ مسمات ہندہ پر شوہر کے اِس جملے ”تمہارا ہمارا کوئی رشتہ نہیں“ کی وجہ سے ایک طلاقِ بائن واقع ہوگئی ہے، اور پھر زید نے اگر عدت کے اندر ہی بیوی کو ”میں نے تجھے ایک طلاق دیا“ کہا ہے تو اِس سے دوسری طلاقِ بائن بھی واقع ہوگئی ہے ورنہ صرف ایک ہی طلاقِ بائن واقع ہوئی ہے، لہٰذا دونوں صورتوں میں یہ دونوں چاہیں تو دوبارہ نئے مہر کے ساتھ نکاح کرسکتے ہیں، حلالہ وغیرہ کی ضرورت نہیں ہے۔ مسئلے کی تفصیل یہ ہے کہ لفظِ واسطہ اور رشتہ الفاظِ کنایہ سے ہیں اِسی لئے ان سے وقوعِ طلاق نیت یا دلالتِ حال پر موقوف ہوتا ہے۔چنانچہ علامہ نظام الدین حنفی متوفی١١٦١ھ اور علمائے ہند کی ایک جماعت نے لکھا ہے:ولو قال لها: لا نكاح بيني وبينك، أو قال: لم يبق بيني وبينك نكاح، يقع الطلاق إذا نوی۔(الفتاوی الھندیة،٣٧٥/١)

یعنی، شوہر نے بیوی سے کہا کہ میرے اور تیرے درمیان نکاح نہیں ہے یا کہا کہ میرے اور تیرے درمیان نکاح باقی نہ رہا تو طلاق واقع ہوجائے گی جبکہ طلاق دینے کی نیت سے کہا ہو۔

   اور لفظِ واسطہ اور رشتہ سوال رد کرنے یا گالی دینے کا احتمال نہیں رکھتے ہیں بلکہ جواب یعنی جدائی کیلئے متعین ہیں لہٰذا حالتِ رضا کے علاوہ مثلاً جھگڑے وغیرہ کے دوران وقوعِ طلاق کیلئے نیت کی بھی حاجت نہیں ہے۔چنانچہ علامہ ابو الحسین احمد بن محمد قدوری حنفی متوفی٤٢٨ھ اور علامہ ابو بکر بن علی حدادی حنفی متوفی٨٠٠ھ لکھتے ہیں:(وان لم یکونا مذاکرة الطلاق وکانا فی غضب او خصومة وقع الطلاق بکل لفظة لا یقصد بھا السب والشتیمة) لان ھذہ الفاظ لا تصلح للشتیمة، مثلا:اعتدی، اختاری، امرک بیدک، لان ھذہ الفاظ لا تصلح للشتیمة، بل تحتمل الفرقة، وحال الغضب حال الفرقة، فالظاھر من کلامہ الفرقة۔ملخصًا
(مختصر القدوری وشرحہ الجوھرة النیرة،١٧٠/٢)

یعنی،شوہر اور بیوی مذاکرۂ طلاق میں نہ ہوں بلکہ غصہ یا لڑائی کی حالت میں ہوں تو ہر اس لفظ سے بغیر کسی نیت کے بھی طلاق واقع ہوجائے گی جن سے سب وشتم یعنی گالی دینے کا قصد نہ کیا جاتا ہو مثلاً شوہر اپنی بیوی سے کہے:تو عدت گزار، تو اختیار کرلے، تیرا معاملہ تیرے ہاتھ میں ہے، کیونکہ یہ سب الفاظ سب وشتم کا احتمال نہیں رکھتے بلکہ فرقت کا احتمال رکھتے ہیں اور غصہ کی حالت فرقت کی حالت ہے لہٰذا اس کے کلام سے ظاہر یہی ہے۔

   اور علامہ علاء الدین حصکفی حنفی متوفی١٠٨٨ھ اور علامہ سید محمد امین ابن عابدین شامی حنفی متوفی١٢٥٢ھ لکھتے ہیں:(الکنایات ثلاث ما یحتمل الرد او ما یصلح للسب او لا ولا) الثالث یتوقف علیھا فی حالة الرضا فقط، ویقع حالة الغضب والمذاکرة بلا نیة۔ملخصًا(الدر المختار وشرحہ رد المحتار،٢٩٨/٣۔٣٠١)

یعنی،کنایہ کے الفاظ تین طرح کے ہیں۔ بعض میں سوال رد کرنے کا احتمال ہے، بعض میں گالی کا احتمال ہے اور بعض میں نہ یہ ہے نہ وہ، بلکہ جواب کے لیے متعین ہیں تیسری صورت یعنی جو فقط جواب ہو تو خوشی میں نیت ضروری ہے اور غضب و مذاکرہ کے وقت بغیر نیت بھی طلاق واقع ہے۔ملخصًا(بہار شریعت،١٢٨/٢۔١٢٩)

   اور پھر شوہر نے اِس کے بعد جتنے بھی کنایہ الفاظ کہے ہیں ان سے مزید طلاقیں واقع نہیں ہوں گی کیونکہ بائن، بائن کے ساتھ جمع نہیں ہوتی ہے مگر جبکہ اسے پہلی کی خبر بنانا ممکن نہ ہو۔چنانچہ امام ابو البرکات عبد اللہ بن احمد نسفی حنفی متوفی٧١٠ھ لکھتے ہیں:البائن یلحق الصریح لا البائن الا اذا کان معلقا۔(کنز الدقائق،٤٢١/١)

یعنی،بائن، صریح کو لاحق ہوتی ہے نہ کہ بائن کو مگر جبکہ دوسری طلاقِ بائن معلق ہو۔

   اور صدر الشریعہ محمد امجد علی اعظمی حنفی متوفی١٣٦٧ھ لکھتے ہیں:بائن بائن کو لاحق نہیں ہوتی جبکہ یہ ممکن ہو کہ دوسری کو پہلی کی خبر دینا کہہ سکیں مثلاً پہلے کہا تھا کہ تو بائن ہے اس کے بعد پھر یہی لفظ کہا تو اس سے دوسری واقع نہ ہوگی کہ یہ پہلی طلاق کی خبر ہے یا دوبارہ کہا میں نے تجھے بائن کر دیا اور اگر دوسری کو پہلی سے خبر دینا نہ کہہ سکیں مثلاً پہلے طلاق بائن دی پھر کہا میں نے دوسری بائن دی تو اب دوسری پڑے گی۔(بہار شریعت،١٣٣/٢)

   اور بائن کے بعد دورانِ عدت صریح الفاظ کے ذریعے دوسری بھی طلاقِ بائن واقع ہوتی ہے۔چنانچہ علامہ محمد بن عبد اللہ تمرتاشی حنفی متوفی١٠٠٤ھ اور علامہ حصکفی لکھتے ہیں:(الصریح) یلحق (البائن) بشرط العدة۔ملخصًا(تنویر الابصار وشرحہ الدر المختار مع شرحہ رد المحتار،٣٠٦/٣)

یعنی،صریح دورانِ عدت بائن کو لاحق ہوتی ہے۔

   اِس کے تحت علامہ شامی لکھتے ہیں:(قولہ ویلحق البائن)کما لو قال لھا انت بائن ثم قال انت طالق بحر عن البزازیة، واذا لحق الصریح البائن کان بائنا لان البینونة السابقة علیہ تمنع الرجعة کما فی الخلاصة۔ملخصًا(رد المحتار،٣٠٦/٣)

یعنی،صریح بائن کو لاحق ہوتی ہے جیسے شوہر اپنی بیوی سے کہے کہ تجھے طلاقِ بائن ہے پھر کہے: تجھے طلاق ہے(بحر الرائق میں بزازیہ کے حوالے سے منقول ہے) اور صریح اور بائن جمع ہوجائیں تو بائنہ صریح کو بائنہ بنادیتی ہے کیونکہ رجوع نہیں ہوسکتا ہے جیسا کہ ”خلاصة الفتاوی“ میں ہے۔واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
کتبہ:۔
محمد اُسامہ قادری
پاکستان، کراچی
پیر،٦/ربیع الاول،١٤٤٤ھ۔٣/اکتوبر،٢٠٢٢ء







ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney