سنن و نوافل کو گھر میں پڑھنا زیادہ ثواب ہے یا مسجد میں

(سوال نمبر 2266)

 السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسٔلہ کے بارے میں کہ سنن و نوافل کو گھر میں پڑھنا زیادہ ثواب ہے یا مسجد میں جواب عنایت فرمائیں ؟
سائل : محسن رضا رامپور یوپی

وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ
الجواب بعون الملک العزیز الوھاب 

فرض نماز مسجد میں جماعت کے ساتھ پڑھنا افضل ہے اور سنن و نوافل گھر میں پڑھنا افضل ہے : حدیث شریف میں ہے کہ حضور صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں " علیکم بالصلٰوۃ فی بیوتکم فان خیرصلٰوۃ المرء فی بیته الاالمکتوبة "تم پرلازم ہے گھروں میں نماز پڑھنا کہ بہترنماز مرد کیلئے اس کے گھرمیں ہے سوا فرض کے۔ (مسلم شریف ج ١ ص ٢٦٦ مطبوعہ مجلس برکات)

نیز یہ رسول ﷲ صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی عادت مبارکہ بھی تھی جیساکہ فتاوی رضویہ شریف میں ہےسنن ونوافل کاگھرمیں پڑھنا افضل، اور یہی رسول ﷲ صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی عادت طیبہ بالجملہ اصل حکم استحبابی یہی ہے کہ سنن قبلیہ مثل رکعتین فجر  ورباعی ظہر و عصر و عشاء مطلقًا گھر میں پڑھ کر مسجد کو جائیں کہ ثواب زیادہ پائیں، اور سنن بعدیہ مثل رکعتین ظہر و مغرب و عشاء میں جسے اپنے نفس پراطمینان کامل حاصل ہو کہ گھر جاکر کسی ایسے کام میں جو اسے ادائے سنن سے باز رکھے مشغول نہ ہوگا وہ مسجد سے فرض پڑھ کر پلٹ آئے اور سنتیں گھر ہی میں پڑھے تو بہتر، اور اس سے ایك زیادتِ ثواب یہ حاصل ہوگی کہ جتنے قدم بارادئہ بادائے سنن گھر تك آئے گا وہ سب حسنات میں لکھے جائیں گے۔

قال تبارك وتعالٰی"وَ نَکْتُبُ مَا قَدَّمُوۡا وَ اٰثَارَہُمْ ؕ وَکُلَّ شَیۡءٍ اَحْصَیۡنٰہُ فِیۡۤ اِمَامٍ مُّبِیۡنٍ ""ﷲ تبارك وتعالٰی کافرمان ہے: ہم لکھ رہے ہیں جوانہوں نے آگے بھیجا اور جونشانیاں پیچھے چھوڑگئے اور ہرشئی کوہم نے کتاب مبین میں شمار کررکھاہے"

اور جسے یہ وثوق نہ ہو وہ مسجد میں پڑھ لے کہ لحاظ افضلیت میں اصل نماز فوت نہ ہو، اور یہ معنی عارضی افضلیت صلٰوۃ فی البیت کے منافی نہیں، نظیر اس کی نماز وتر ہے کہ بہتر اخیر شب تك اس کی تاخیر ہے مگر جو اپنے جاگنے پراعتماد نہ رکھتا ہو وہ پہلے ہی پڑھ لے کما فی کتب الفقہ (جیسا کہ کتب فقہ میں ہے) مگراب عام عمل اہل اسلام سنن کے مساجد ہی میں پڑھنے پرہے اور اس میں مصالح ہیں کہ ان میں وہ اطمینان کم ہوتاہے جومساجد میں ہے اور عادت قوم کی مخالفت موجب طعن و انگشت نمائی وانتشار ظنون وفتح باب غیبت ہوتی ہے اور حکم صرف استحبابی تھا تو ان مصالح کی رعایت اس پرمرجح ہے، ائمہ دین فرماتے ہیں: الخروج عن العادۃ شھرۃ ومکروہ (معمول کے خلاف کرنا شہرت اور مکروہ ہے۔(جلد, ٧ ،ص،٤١٦ تا ٤١٧ ،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)

 خلاصہ یہ ہے کہ یہ  فعل استحبابی ہےکہ سنن و نوافل گھر پڑے البتہ اگراطمینان قلب نہ ہو یا گھر پہ وقت میسر نہ ہو  یا  قوم کہیں یہ گمان کرے کہ یہ شخص سنن و نوافل نہیں پڑھتا تو بہتر یہ ہے کہ مسجد ہی میں پڑھے۔واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
کتبہ
معراج رضوی براہی سنبھل یوپی الھند
٦ ربیع الاول ١٤٤٤ہجری








ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney