چور بازار سے سامان خریدنا کیسا ہے؟

(سوال نمبر 2267)

 السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ۔
الاستفتاء:کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین اس مسئلہ میں کہ چور بازار سے سامان خریدنا کیسا ہے؟
سائل:معین الدین امبیڈکر نگر، یوپی

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ۔
باسمہ تعالیٰ وتقدس الجواب:چور بازار سے سامان خرید سکتے ہیں کیونکہ وہاں ہر چیز چوری کی ہونا ضروری نہیں ہے ہاں اگر خریدار کو کسی چیز کے بارے میں یقینی معلوم ہو یا غالب گمان ہو کہ وہ چوری کی ہے تو پھر اس کیلئے وہ چیز خریدنا اور اسے استعمال کرنا حرام ہے۔چنانچہ امام احمد رضا خان حنفی متوفی١٣٤٠ھ لکھتے ہیں:چوری کا مال دانستہ خریدنا حرام ہے بلکہ اگر معلوم نہ ہو مظنون(غالب گمان) ہو جب بھی حرام ہے مثلاً کوئی جاہل شخص کہ اس کے مورثین بھی جاہل تھے کوئی علمی کتاب بیچنے کو لائے اور اپنی ملک بتائے اس کے خریدنے کی اجازت نہیں اور اگر نہ معلوم ہے نہ کوئی واضح قرینہ تو خریداری جائز ہے، پھر اگر ثابت ہوجائے کہ یہ چوری کا مال ہے تو اس کا استعمال حرام ہے۔(فتاوی رضویہ،١٦٥/١٧)واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
کتبہ:۔
محمد اُسامہ قادری
پاکستان، کراچی
پیر،٦/ربیع الاول،١٤٤٤ھ۔٣/اکتوبر،٢٠٢٢ء







ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney