سعودی رہ کر دو طلاق دیا تو رجعت کیسے کرے؟

 (سوال نمبر 2268)

السلام علیکم ورحمة اللہ وبركاته۔
الاستفتاء:کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین اس مسئلہ میں کہ ایک شخص اپنی بیوی کو اس طرح دو طلاقیں دے چکا ہو کہ پہلے ایک دی ہو اور پھر دورانِ عدت ہی مزید ایک طلاق دی ہو اور دونوں مرتبہ اس کے الفاظ یہ ہوں کہ ”میں نے تم کو طلاق دیا“ جبکہ ایک لفظ یعنی ایک طلاق کا حق اس نے اپنے پاس محفوظ رکھا ہو کہ آئندہ ضرورت محسوس ہوئی تو دوں گا تو ایسے شخص کے لئے دو طلاقوں کی کیا اہمیت ہوگی جبکہ وہ سعودی عرب میں ہو اور یہ بھی بتائیں کہ آیا شوہر فون کے ذریعے رجوع کرسکے گا یا پھر گھر جانا ضروری ہوگا؟ مفصل جواب عنایت فرمائیں، اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔
(سائل:ارمان علی قادری، انڈیا)

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ۔
باسمہ تعالیٰ وتقدس الجواب:برتقدیرِ صدقِ سائل شخصِ مذکور کی زوجہ پر دو طلاقِ رجعی واقع ہوگئی ہیں کیونکہ اس نے دو بار اپنی بیوی کو واضح لفظوں میں کہا ہے کہ میں نے تم کو طلاق دیا۔چنانچہ قرآنِ کریم میں ہے:اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ۪ فَاِمْسَاكٌۢ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ تَسْرِیْحٌۢ بِاِحْسَانٍ۔(البقرة:٢٢٩/٢)

ترجمہ،طلاق دو بار تک ہے پھر بھلائی کے ساتھ روک لینا ہے یا نکوئی کے ساتھ چھوڑ دینا ہے۔ (کنز الایمان)

   اور علامہ ابو الحسین احمد بن محمد قدوری حنفی متفی٤٢٨ھ لکھتے ہیں:الصریح قولہ:طلقتک فھذا یقع بہ الطلاق الرجعی۔ملخصًا۔(مختصر القدوری،ص٣١٦)

یعنی،شوہر کا اپنی بیوی کو یہ کہنا کہ میں نے تم کو طلاق دیا، صریح الفاظِ طلاق میں سے ہے پس اِس کے ذریعے طلاقِ رجعی واقع ہوگی۔

   لہٰذا شوہر چاہے تو عدت گزرنے سے پہلے عورت کی مرضی کے بغیر بھی اس سے رجوع کرسکتا ہے اگرچہ فون کے ذریعے کرے کہ اِس کیلئے بیوی کا سامنے ہونا شرط نہیں ہے۔چنانچہ امام قدوری لکھتے ہیں:اذا طلق الرجل امراتہ تطلیقة رجعیة او تطلیقتین فلہ ان یراجھا فی عدتھا رضیت المرأة بذلک او لم ترض۔(مختصر القدوری،ص٣٢٥)

یعنی،جب کوئی شخص اپنی بیوی کو ایک یا دو طلاقِ رجعی دے تو اس کیلئے عدت کے اندر عورت کی مرضی کے بغیر بھی اس سے رجوع کرنا جائز ہے۔

   اور رجوع کا آسان طریقہ یہ ہے کہ وہ اپنی بیوی سے کہہ دے کہ میں نے تجھے اپنے میں نکاح میں واپس لیا، اِس طرح وہ بدستور اس کی بیوی رہے گی، اور اگر شوہر نے عدت کے اندر رجوع نہ کیا تو عدت گزرنے کے بعد وہ عورت اس کے نکاح سے خارج ہوجائے گی لہٰذا اسے اپنے پاس رکھنے کیلئے نئے مہر کے ساتھ دوبارہ اس سے نکاح کرنا ہوگا بشرطیکہ عورت اِس پر راضی ہو ورنہ وہ عورت آزاد ہوگی جہاں چاہے نکاح کرے اس پر کوئی جبر نہیں ہوگا لیکن ان دونوں صورتوں میں یعنی رجوع یا نکاح کی صورت میں آئندہ شوہر کے پاس صرف ایک ہی طلاق کا حق باقی رہے گا پس جب بھی وہ اسے مزید ایک طلاق دے گا تو عورت اس پر حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہوجائے گی اور حلالہ کے بغیر وہ اس کیلئے ہرگز حلال نہ ہوگی۔چنانچہ قرآنِ کریم میں ہے:فَاِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهٗ مِنْۢ بَعْدُ حَتّٰى تَنْكِحَ زَوْجًا غَیْرَهٗ۔(البقرة:٢٣٠/٢)
ترجمہ،پھر اگر تیسری طلاق اسے دی تو اب وہ عورت اسے حلال نہ ہوگی جب تک دوسرے خاوند کے پاس نہ رہے۔(کنز الایمان)واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب

کتبہ:۔
محمد اُسامہ قادری
پاکستان، کراچی
بدھ،١/ربیع الاول،١٤٤٤ھ۔٢٨/ستمبر،٢٠٢٢ء







ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney