سرپر زخم ہو اور غسل فرض ہو تو کیا حکم ہے؟

(سوال نمبر 2270)

 السلام علیکم
کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں اگر کسی کے سرپر زخم ہو اور غسل فرض ہو تو کیا حکم ہے؟جبکہ سرپے پانی ڈالنا مضر ہو ؟
المستفتی علی حسین رضوی دولتپور گونڈہ

وعلیکم السلام 
بسم اللہ الرحمن الرحیم 
الجواب بعون الملک الوھاب
 
اسی طرح ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے اعلی حضرت امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن  تحریر فرماتے ہیں کہ اگر غسل کی حاجت ہوتواگر مضرت صرف ٹھنڈاپانی کرتا ہے گرم نہ کرے گا اور اسے گرم پانی پر قدرت ہے توبیشک پورا غسل کرے اتنی جگہ کو گرم پانی سے دھوئے باقی بدن گرم یاسرد جیسے سے چاہے ،اور اگر ہر طرح کا پانی مضر ہے یا گرم مضر تو نہ ہوگا مگر اسے اس پر قدرت نہیں توضرر کی جگہ بچا کر باقی بدن دھوئے اور اس موضع پر مسح کرلے اور اگر وہاں بھی مسح نقصان دے مگر دوا یا پٹی کے حائل سے پانی کی ایک دھار بہا دینی مضر نہ ہوگی تو وہاں اُس حائل ہی پر بہادے باقی بدن بدستور دھوئے اور اگر حائل پر بھی پانی بہانا مضر ہوتو دوا یا پٹی پر مسح ہی کرلے اگر اس سے بھی مضرت ہوتو اُتنی جگہ خالی چھوڑ دے ۔ جب وہ ضرر دفع ہوتوجتنی بات پر قدرت ملتی جائے بجالاتاجائے ۔ یہی سب حکم وضو میں ہیں ۔ اگر اعضائے وضو میں کسی جگہ کوئی مرض ہو۔“(فتاوی رضویہ،جلد01(ب)،صفحہ617-618،رضا فاؤنڈیشن )

رد المختار میں ہے :فروع:  في أعضائه شقاق غسله إن قدر وإلا مسحه وإلا تركه ولو بيده، ولايقدر على الماء تيمم، ولو قطع من المرفق غسل محل القطع" ( جلد اول صفحہ ٢١٨، دار عالم الکتب)واللہ تعالی اعلم بالصواب 

کتبہ 
محمد مدثر جاوید رضوی 
مقام۔ دھانگڑھا، بہادر گنج 
ضلع۔ کشن گنج، بہار







ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney