بچہ پیداہونے کے بعد رک رک کر خون آیاتونفاس ہے یا استحاضہ

 سوال نمبر 2273

السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ۔
الاستفتاء:کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین اس مسئلہ میں کہ اگر کسی عورت کو بارہ دن نفاس آیا پھر سولہ دن کچھ خون نہیں آیا پھر خون آنا شروع ہوگیا اور اسے نفاس کی کوئی عادت بھی نہیں ہے، تو اب آنے والا خون حیض ہوگا یا نفاس یا پھر استحاضہ؟
(سائل:معین الدین، امبیڈکر نگر یوپی)
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ۔
باسمہ تعالیٰ وتقدس الجواب:اس عورت کو سولہ دن بعد آنے والا خون نفاس ہی ہے بلکہ جن سولہ دنوں میں اسے خون نہیں آیا وہ بھی نفاس کے ہیں ہاں اگر اسے چالیس دن سے زیادہ خون آئے تو صرف چالیس دن نفاس کے شمار ہوں گے اور باقی استحاضہ۔چنانچہ امام برہان الدین ابو الحسن علی بن ابی بکر مرغینانی حنفی متوفی٥٩٣ھ لکھتے ہیں:اکثرہ اربعون یومًا، والزائد علیہ استحاضة، لحدیث أم سلمة رضی اللہ عنھا: ان النبی علیہ السلام ”وقت للنفساء اربعین یومًا“، ولو جاوز الدم الأربعین، ولم تکن لھا عادة فابتداء نفاسھا أربعون یومًا۔ملخصًا
(الھدایة شرح بدایة المبتدی،١٢٢/١)
یعنی،نفاس کی اکثر مدت چالیس دن ہے اور اس پر زائد آنے والا خون استحاضہ ہے کیونکہ ام المٶمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی حدیث ہے کہ ”نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے نفاس والی عورتوں کیلئے چالیس دن مقرر فرمائے ہیں“ اور اگر خون چالیس دنوں کو تجاوز کرجائے اور اس کی عادت مقرر نہ ہو تو اس کے نفاس کی ابتداء چالیس دن ہوگی۔
   اور علامہ نظام الدین حنفی متوفی١١٦١ھ اور علمائے ہند کی ایک جماعت نے لکھا ہے:الطھر المتخلل فی الاربعین بین الدمین نفاس عند ابی حنیفة رحمہ اللہ تعالیٰ وان کان خمسة عشر یومًا فصاعدًا وعلیہ الفتوی۔
(الفتاوی الھندیة،٣٧/١)
یعنی،چالیس دنوں کے اندر کبھی خون آیا کبھی نہیں تو امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کے نزدیک سب نفاس ہی ہے اگرچہ پندرہ دن یا اس سے زیادہ کا فاصلہ ہوجائے اور اِسی پر فتوی ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
کتبہ:۔
محمد اُسامہ قادری
پاکستان، کراچی
ہفتہ،١٨/ربیع الاول،١٤٤٤ھ۔١٥/اکتوبر،٢٠٢٢ء









ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney