کثیر بارش کو عذاب کہنا کیساہے؟

 سوال نمبر 2275

السلام  علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ
میرا سوال یہ ہے کہ چند دن سے یوپی میں کئی مقامات پر لگاتار بارش ہو رہی ہے 
کچھ لوگ اِسکو عذاب بول رہے ہیں کہ یہ اللّٰہ کا عذاب ہے ایک مسجد کے مولانا نے بھی دعا میں یہی جملہ استعمال کیا کہ يا اللّٰہ اپنے اس عذاب سے بچا لے جب کہ زید نے رد کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے پاس کون سا پیمانہ ہے کہ آپ نے ناپ لیا کہ یہ اللّٰہ کا عذاب ہے پھر زید نے چند مثالیں دیں جو نبیوں پر مصیبتیں آئیں  کسکا قول صحیح ہے تاکہ مفصّل جواب دیا جائے.مہربانی کر کے اِسکو  تفصیلاً بیان کریں بہت مہربانی ہوگی
 
سائل محمد عتیق مرادآباد
وعلیکم سلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
 الجواب بعون الملک الوہاب
بارش اللہ کی رحمت ہے لیکن  بارش جب اتنی کثیر ہو جائے کہ جان و مال وغیرہ کی تباہی کا سبب ہو جائے مثلاً سیلاب اور طوفان کی صورتیں اختیار کرلے تو ضرور زحمت اور عذاب کہنا درست ہوگا! کہ الله تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے "ما اصابکم من مصیبۃ فبما کسبت ایدیکم و یعفو عن کثیر" کے تحت مہلک و مضر حد تک کی بارش مصیبت ہوئی! نہ کہ رحمت.
چنانچہ بخاری ومسلم میں ایک لمبی حدیث ہے جس میں بارش کے لئے ایک دیہاتی صحابی نے دعا کی درخواست کی تو نبی کریم علیہ السلام نے عین خطبہ دعا فرمائ تو بارش شروع ہوگئی پھر ایک ہفتہ تک ہوتی رہی پھر دوسرے ہفتہ جمعہ کے دن عرض کی گئی حضور بارش زیادہ ہوگئی عمارتیں گر گئیں مال ڈوب گئے آپ اﷲ سے دعا کریں تو حضور نے عرض کی  اَللّٰهُمَّ حَوَالَيْنَا وَلَا عَلَيْنَا یاالٰہی ہمارے آس پاس برسا ہم پر نہ برسا الخ
اس حدیث کی شرح میں حکیم الامت مفتی  احمد یار خاں نعیمی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ اس سے معلوم ہوا کہ بارش اگر مضر ہو تو اس کے بند کرنے کی دعا کرنا جائز ہے بارش حد میں ہو تو رحمت ہے اور حد سے بڑھ جاوے تو زحمت ہے،جو لوگ کہتے ہیں کہ بارش رحمت ہے اس کے رکنے کی دعا نہیں کرنا چاہیے غلط ہے
(مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح  جلد:8   حدیث نمبر:5902)
معلوم ہواکہ جب بارش حد سے زیادہ ہوجائے جس سے جان یا مال  نقصان ہونے لگے تو اسے زحمت یا عذاب کہنے میں حرج نہیں جیساکہ ماضی قریب میں ممبئی واطراف ممبئی میں کثرت سے بارش ہوئی کہ لوگوں کا کافی نقصان ہوا توکیا اب اسے رحمت کہیں گے؟نہیں.ہرگز نہیں بلکہ جب وہ عذاب کی شکل اختیار کرلیاتو عذاب ہی کہاجائےگا.
پھر سب سے اہم بات یہ کہ امام صاحب نے دعاکی ہے کہ مولی اس عذاب سے بچالے یعنی بارش اس قدر نہ نازل کر کہ ہمارے لئے عذاب بن جائے اور اس کا ثبوت حدیث شریف میں موجود ہے
 وَعَنْ  عَائِشَةَ قَالَتْ: إِنَّ رَسُولَ اللهِ   صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ  كَانَ إِذَا رَأَى المَطَرَ قَالَ: “اَللّٰهُمَّ صَيِّبًا نَافِعًا” . رَوَاهُ البُخَارِيُّ
روایت ہے حضرت عائشہ سے فرماتی ہیں کہ رسول  الله  صلی الله علیہ وسلم جب بارش دیکھتے تو عرض کرتے الہی بہت اور نافع بارش ہو(مشکوۃ)
اسکی شرح میں مفتی احمد یار خاں نعیمی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ صَیِّبٌ صوبٌ سے بنا،بمعنی بہنا،اصل صیوب تھا،مبالغہ کا صیغہ ہے،یعنی خدایا بہنے والا بہت پانی برسا اور اسے نفع بخش بنا کیونکہ محض بونداباندی سے زمین سیرنہیں ہوتی اورمضرپانی سےسیلاب آجاتےہیں۔(مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح  جلد:2   حدیث نمبر:1500)
اور ایک روایت میں ہے  کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب بارش دیکھتے تو فرماتے خدایا رحمت ہو۔(مشکوۃ حدیث نمبر 1513)
معلوم ہواکہ یہ دعا کرنا کہ مولی عذاب سے بچالے یا یہ ہمارے لئے رحمت بنادے درست ہے  اور حدیث سے ثابت ہے یونہی وہ بارش جو مضر ہو وہ رحمت نہیں ہے اسے زحمت کہنے یا عذاب کہنے میں حرج نہیں ہے ہاں اگر بارش اس قدر نہ ہو جو مضر ہو یعنی جس سے جان یامال کا نقصان نہ ہو اور نہ ہی خدشہ ہوتو اسے عذاب یا زحمت کہنا درست نہ ہوگا کیونکہ وہ تو مفید ہے اور جو مفید ہو وہ رحمت ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
     
                    کتبہ
محمد فرقان برکاتی امجدی
۱۲ / ربیع النور شریف ۱۴۴۴ ھ
۹ / اکتوبر   ۲۰۲۲   ء







ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney