سوال نمبر 2277
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
الاستفتاء:کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین اس مسئلہ میں کہ اگر کسی بالغہ عورت کو پانچ دن حیض آنے کی عادت ہے اور اسے نو دن خون آیا تو کتنا حیض ہے اور کتنا استحاضہ؟
(سائل:معین الدین، امبیڈکر نگر یوپی)
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ۔
باسمہ تعالیٰ وتقدس الجواب:نو دن حیض ہی کے ہیں ہاں اگر خون دس دنوں سے زیادہ آئے تو صرف عادت کے ایام یعنی پانچ دن حیض کے شمار ہوں گے اور بقیہ استحاضہ۔چنانچہ پہلی صورت کے بارے میں علامہ نظام الدین حنفی متوفی١١٦١ھ اور علمائے ہند کی ایک جماعت نے لکھا ہے:ان لم یجاوز العشرة فالطھر والدم کلاھما حیض سواء کانت مبتدأة أو معتادة۔
(الفتاوی الھندیة،٣٧/١)
یعنی،حیض دس دنوں کو تجاوز نہ کرے تو طہر اور خون سب حیض ہے چاہے عورت کو پہلی بار حیض آیا ہو یا عادت مقرر ہو۔
اور علامہ سید محمد امین ابن عابدین شامی حنفی متوفی١٢٥٢ھ لکھتے ہیں:لو زاد علی العادة ولم یزد علی الاکثر فالکل حیض اتفاقا بشرط ان یکون بعدہ طھر صحیح۔
(رد المحتار علی الدر المختار،٣٠٠/١۔٣٠١)
یعنی،حیض عادت پر زائد ہو اور اکثر پر تجاوز نہ کرے تو بالاتفاق سب حیض ہے بشرطیکہ اس کے بعد طہر صحیح آئے(یعنی کم از کم پورے پندرہ دن پاکی کا زمانہ گزرے)۔
اور دوسری صورت کے بارے میں علامہ نظام الدین حنفی اور علمائے ہند کی ایک جماعت نے لکھا ہے:ان جاوز العشرة ففی المعتادة معروفتھا فی الحیض حیض والطھر طھر ھکذا فی السراج الوھاج۔ملخصًا
(الفتاوی الھندیة،٣٧/١)
یعنی،اگر حیض دس دنوں کو تجاوز کرجائے تو عادت والی کے حق میں ایامِ عادت حیض شمار ہوں گے اور بقیہ پاکی کے، اسی طرح ”سراج الوھاج“ میں ہے۔
اور علامہ شامی لکھتے ہیں:ان زاد علی عشرة فی المبتدأة فالزائد استحاضة وترد المعتادة لعادتھا ط۔
(رد المحتار علی الدر المختار،٣٠٠/١)
یعنی،اگر حیض دس دنوں سے زیادہ خون آیا تو جس کو پہلی بار حیض آیا ہے تو زائد خون استحاضہ ہے اور عادت والی کے صرف ایامِ عدت حیض کے ہیں اور باقی استحاضہ کے(حاشیة الطحطاوی)۔
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
کتبہ:۔
محمد اُسامہ قادری
پاکستان، کراچی
بدھ،١٥/ربیع الاول،١٤٤٤ھ۔١٢/اکتوبر،٢٠٢٢ء
الاستفتاء:کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین اس مسئلہ میں کہ اگر کسی بالغہ عورت کو پانچ دن حیض آنے کی عادت ہے اور اسے نو دن خون آیا تو کتنا حیض ہے اور کتنا استحاضہ؟
(سائل:معین الدین، امبیڈکر نگر یوپی)
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ۔
باسمہ تعالیٰ وتقدس الجواب:نو دن حیض ہی کے ہیں ہاں اگر خون دس دنوں سے زیادہ آئے تو صرف عادت کے ایام یعنی پانچ دن حیض کے شمار ہوں گے اور بقیہ استحاضہ۔چنانچہ پہلی صورت کے بارے میں علامہ نظام الدین حنفی متوفی١١٦١ھ اور علمائے ہند کی ایک جماعت نے لکھا ہے:ان لم یجاوز العشرة فالطھر والدم کلاھما حیض سواء کانت مبتدأة أو معتادة۔
(الفتاوی الھندیة،٣٧/١)
یعنی،حیض دس دنوں کو تجاوز نہ کرے تو طہر اور خون سب حیض ہے چاہے عورت کو پہلی بار حیض آیا ہو یا عادت مقرر ہو۔
اور علامہ سید محمد امین ابن عابدین شامی حنفی متوفی١٢٥٢ھ لکھتے ہیں:لو زاد علی العادة ولم یزد علی الاکثر فالکل حیض اتفاقا بشرط ان یکون بعدہ طھر صحیح۔
(رد المحتار علی الدر المختار،٣٠٠/١۔٣٠١)
یعنی،حیض عادت پر زائد ہو اور اکثر پر تجاوز نہ کرے تو بالاتفاق سب حیض ہے بشرطیکہ اس کے بعد طہر صحیح آئے(یعنی کم از کم پورے پندرہ دن پاکی کا زمانہ گزرے)۔
اور دوسری صورت کے بارے میں علامہ نظام الدین حنفی اور علمائے ہند کی ایک جماعت نے لکھا ہے:ان جاوز العشرة ففی المعتادة معروفتھا فی الحیض حیض والطھر طھر ھکذا فی السراج الوھاج۔ملخصًا
(الفتاوی الھندیة،٣٧/١)
یعنی،اگر حیض دس دنوں کو تجاوز کرجائے تو عادت والی کے حق میں ایامِ عادت حیض شمار ہوں گے اور بقیہ پاکی کے، اسی طرح ”سراج الوھاج“ میں ہے۔
اور علامہ شامی لکھتے ہیں:ان زاد علی عشرة فی المبتدأة فالزائد استحاضة وترد المعتادة لعادتھا ط۔
(رد المحتار علی الدر المختار،٣٠٠/١)
یعنی،اگر حیض دس دنوں سے زیادہ خون آیا تو جس کو پہلی بار حیض آیا ہے تو زائد خون استحاضہ ہے اور عادت والی کے صرف ایامِ عدت حیض کے ہیں اور باقی استحاضہ کے(حاشیة الطحطاوی)۔
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
کتبہ:۔
محمد اُسامہ قادری
پاکستان، کراچی
بدھ،١٥/ربیع الاول،١٤٤٤ھ۔١٢/اکتوبر،٢٠٢٢ء
0 تبصرے