مثال دیکر کہا بیوی کو طلاق توکیاحکم ہے؟

 سوال نمبر 2345


السلام علیکم و رحمة اللہ و برکاتہ۔

الاستفتاء:کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اِس مسئلہ میں کہ ایک اُستاد اپنے شاگرد کو سمجھانے کے لئے کہتا ہے کہ مثال کے طور پر میں اپنی بیوی کو تین طلاق دیتا ہوں تو کیا اس صورت میں طلاق واقع ہوجائے گی؟ جواب عنایت فرمائیں، دلائل کے ساتھ مہربانی ہوگی۔

(سائل:محمد نسیم، بنگال)

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ۔

باسمہ تعالیٰ وتقدس الجواب:صورتِ مسئولہ میں طلاق واقع نہیں ہوگی کیونکہ درس و تدریس اور فقہ کی تکرار کے دوران الفاظِ طلاق کہنا وُقوعِ طلاق کا سبب نہیں بنتا ہے۔چنانچہ علامہ کمال الدین ابن ہمام حنفی متوفی٨٦١ھ لکھتے ہیں:لو کرر مسائل الطلاق بحضرة زوجتہ ویقول: انت طالق ولا ینوی طلاقًا لا تطلق، وفی متعلم یکتب ناقلًا من کتاب رجل قال: ثم وقف و کتب امراتی طالق و کلما کتب قرن الکتابة بالتلفظ بقصد الحکایة لا یقع علیہ۔(فتح القدیر،کتاب الطلاق،باب ایقاع الطلاق،٤/٤)

یعنی،کوئی شخص اپنی بیوی کی موجودگی میں مسائلِ طلاق کی تکرار کرے اور کہے کہ تجھے طلاق، اور اُس کی نیت طلاق دینے کی نہ ہو تو طلاق واقع نہیں ہوگی۔ یا طالبِ علم دوسرے کی کتاب سے بطورِ حکایت تلفظ کے ساتھ لکھے پھر ٹھہر جائے اور لکھے کہ میری بیوی کو طلاق، اور جب جب وہ لکھنے کو تلفظ کے ساتھ نقل کے ارادے سے ملائے گا تو اُس کی بیوی پر طلاق واقع نہیں ہوگی۔

  اور علامہ سید محمد امین ابن عابدین شامی حنفی متوفی١٢٥٢ھ لکھتے ہیں:لو کرر مسائل الطلاق بحضرتھا، او کتب ناقلًا من کتاب امراتی طالق مع التلفظ، او حکی یمین غیرہ فانہ لا یقع اصلًا ما لم یقصد زوجتہ۔

(رد المحتار،باب صریح الطلاق،٢٥٠/٣)

یعنی،کوئی شخص اپنی بیوی کی موجودگی میں مسائلِ طلاق کی تکرار کرے یا کسی کتاب سے میری بیوی کو طلاق تلفظ کے ساتھ نقل کرتے ہوئے لکھے یا کوئی شخص کسی دوسرے کی قسم کے الفاظ نقل کرے تو طلاق واقع نہیں ہوگی جب تک اپنی زوجہ کا قصد نہ کرے۔

واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب

کتبہ:۔

محمد اُسامہ قادری

پاکستان،کراچی

پیر،٢/جمادی الاخری،١٤٤٤ھ۔٢٥/دسمبر،٢٠٢٢ء







ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney