نابالغہ بچی کو سونا دے دیا تو زکوۃ کاکیاحکم ہے؟

 سوال نمبر 2386


السلام عليكم و رحمة اللّٰه و بركاته

 کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان کرام اس مسئلہ میں ۔۔

زید مالک نصاب ہے اور اس نے نو تولہ سونا اپنی تین بیٹیوں کو دیا ہے دریافت یہ ہے کہ کیا زید کو سونے کی زکوٰۃ دینی پڑے گی یا نہیں 

سائل ۔۔ سفیان رضا ممبئی


وَعَلَيْكُم السَّلَام وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎

الجواب بعون اللہ و رسولہ


اگر زید نے سونا اپنی بیٹوں کو استعمال کے لیےدیا ہے یعنی اس نے اپنی بیٹیوں کو مالک نہیں بنایا تو زکوة زید پر واجب ہے بیٹیوں پر نہیں کیوں کہ زکوة کےشرائط میں سے ایک شرط یہ بھی کہ اس مال کا وہ مالک ہو ساتھ ہی ساتھ اس پر قابض بھی ہو!


علامہ شیخ نظام الدین حنفی متوفی ١١٦١ھ اور علمائے ہند کی ایک جماعت نے تحریر فرمایا ہے وَمِنْهَا الْمِلْكُ التَّامُّ وَهُوَ مَا اجْتَمَعَ فِيهِ الْمِلْكُ وَالْيَدُ  یعنی شراٸطِ وجوبِ زکوة میں یہ بھی ہے کہ پوری ملکیت ہو اور ملکیت ایسے ہوگی کہ اسکا مالک بھی ہو اور اس پر مکمل قبضہ بھی ہو(الفتاویٰ الھندیة ، المجلدالاول ، کتاب الزکوة ، ص ١٨٩ {بیروت لبنان)


اور اگر بیٹیوں کو سونا کا مالک بنایا تو اسکی دو صورتیں ہے اگر بیٹاں بالغہ ہیں تو زکوة واجب ہوگی بشریطیکہ مال نصاب کو پہونچ رہاہو.

علامہ ابو الحسین احمد بن محمد بن احمد القدوری متوفی ٤٤٨ھ تحریرفرماتےہیں ہے ۔الزکاة واجبة علی الحر المسلم البالغ العاقل اذا ملک نصابا کاملا

زکوة واجب ہے ازاد مسلمان بالغ عاقل پر جبکہ وہ مکمل نصاب کو پہنچیں(المختصرالقدوری ، کتاب الزکاة ،  ص١٥٧ مکتبة البشریٰ پاکستان)


اوراگر وہ بیٹاں نابالغہ ہیں اگرچہ ان کومالک بنا دیا گیا تو ایسی صورت زکوة واجب نہیں اگرچہ وہ مال نصاب کو پہونچ رہاہو جیساکہ قدوری کی عبارت سے ظاہر و باہر ہےکہ بالغ ہونا بھی شرط ہے نابالغ پر نہیں!


اور صدرالشریعہ مفتی امجد علی اعظمی متوفیٰ ١٣٦٧ھ تحریر فرماتےہیں نابالغ پر زکاۃ واجب نہیں (بہارشریعت ، حصہ٥ ، ص ٨٧٥{مکتبہ مدینہ دھلی)


تنبیہ ۔۔  نابالغ ونابالغہ کو اموال کا مالک بنانا اس نیت سے کہ زکوة و صدقات سے بچیں اور مال ہمارا باقی رہے تو یہ مستحقین کی حق تلفی ہے جو کہ ناجائز و حرام ہے

علامہ حافظ احمدبن علی بن حجر العسقلانی متوفیٰ ٨٥٢ھ تحریر فرماتےہیں ۔ھی مایتوصل بہ الی مقصود بطریق خفی ۔وھی عند العلماء علی اقسام بحسب الحامل علیھا ۔فان توصل بھا بطریق مباح الی ابطال حق او اثبات باطل فھی حرام 

ترجمہ حیلہ یہ ہے کہ جائز طریقے سے کسی مقصود تک پہنچنا۔اور علماء کے نزدیک حیلہ کرنے والے کے اعتبار سے اس کی کئی اقسام ہیں : اگر جائز طریقے سے غیر کے حق کو باطل یا باطل چیز کو حاصل کرنے کے لئے کیا جائے حرام ہے (فتح الباری شرح صحیح البخاری ، المجلدالثانی عشر ، کتاب الحیل ، ص ٣٤٢{بیروت لبنان)


واللہ و رسولہ اعلم 

کتبہ 

عبیداللّٰه حنفیؔ بریلوی مقام دھونرہ ٹانڈہ ضلع بریلی شریف {یوپی}

١٦ /رمضان المبارک/ ١٤٤٤ھ

٧/اپریل/ ٢٠٢٣ء







ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney