جان بچانے کے لئے کلمہ کفر کہاتو کیاحکم ہے؟

سوال نمبر 2404

 السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
اگر کسی کی جان خطرے میں ہو یعنی کوئی شخص کسی شخص کے گردن پر تلوار رکھ کر کہے کہ تو خدا کا انکار کر 
تو وہ جان بچانے کے لیے انکار کر سکتا ہے!
وَعَلَيْكُم السَّلَام وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎
الجواب بعون الملک الوہاب 
اگر واقعی یقین ہے  کہ اسکا کہا نہ کہنے پرقتل ہوجاۓ گا یا پھر ہاتھ پیر وغیرہ کاٹا جاسکتا ہے ایسی صورت میں شرع نے رخصت دی ہے یعنی فقط زبان سے بول کر اپنی جان بچاسکتا ہے مگر قلب میں اطمنان ہو کہ اللہ وحدہ لاشریک کا انکار کسی حال میں نہیں کیا جاسکتا!
جیساکہ قرآن مجید میں ہے۔۔۔
مَنْ كَفَرَ بِاللّٰهِ مِنْۢ بَعْدِ اِیْمَانِهٖۤ اِلَّا مَنْ اُكْرِهَ وَ قَلْبُهٗ مُطْمَىٕنٌّۢ بِالْاِیْمَانِ وَ لٰـكِنْ مَّنْ شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدْرًا فَعَلَیْهِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللّٰهِۚ-وَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ
جو ایمان لا کر اللہ کا منکر ہو سوا اس کے جو مجبور کیا جائے اور اس کا دل ایمان پر جما ہوا ہو ہاں وہ جو دل کھول کر کافر ہو ان پر اللہ کا غضب ہے اور ان کو بڑاعذاب ہے
کنزالایمان ، سورہ نحل ، آیت ١٠٦
مذکورہ آیت مبارکہ کی تشریح تفسیرجلالین میں اس طرح مذکور ہے ۔۔۔ 
من کفر بعد ایمانہ باللہ من بعد ایمانہ الآیة فی الخازن نزلت ہذہ الآیة فی عمار بن یاسر و ذلک ان الاکفار اخذوہ و اباہ و ھو یاسر وامہ وھی سمیة و اخذوہا ایضا صہیبا و بلالا و خبابا فعذبوھم لیرجعوا عن الایمان فاماسمیة فربطوھا بین بعیرین و ضربھا ابوجہل فماتت و قتل زوجھا یاسرا و ھما اول قتیلین فی الاسلام واما عمارفانہ اعطاھم بعض ما ارادوا بلسانہ مکرہا فانھم قالوا اکفر بمحمدﷺ فبایعھم علی ذلک وقلبہ کارہ فاخبر النبیﷺ بان عمارا کفر فقال کلّان عمار اعلی ایمانا من قرنہ الی قدمہ و اختلط الایمان ہدمہ و لحمہ فاٰتی عمار رسول اللہﷺ وھو یبکی فجعل رسول اللہﷺ یمسح عینیہ و قال لہ ان عادوا لک فقل لھم ماقلت
مذکورہ آیت یہ آیت مبارکہ حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنھما کےحق میں نازل ہوٸی کہ مشرکون نے حضرت عمار کو اور انکے والد یاسر اور انکی والدہ سمیہ بلا خباب اور سالم رضی اللہ عنھم کو زد میں لےلیا اور حضرت سمیہ کو ان مشرکوں نے دواونٹوں کے درمیان باندھ کر ایک برچھی سے آپ کی شرمگاہ پر وار کیا اور کافروں میں سےایک نے ان سےکہا تو آدمیوں کےسبب ایمان لاٸی ہے پھر سمیہ اور انکے شوہر یاسر کو شہید کردیا یہ حضرات اسلام میں پہلے شہید ہیں حضرت عمار نے مجبورا فقط زبان سے کلمہ کفر بول دیا یعنی مکرا کہا نبی کریم ﷺ تک خبر پہنچاٸی گٸ کہ عمار کافر ہوگیا تو آپﷺ نے فرمایا ایسا ہرگز نہیں ہے عمار اپنے سر سے پیروں تک ایمان سے بھرا ہے اور ایمان اسکے خون و گوشت میں رچا بسا ہواہے حضرت عمار رسول ﷺ کےپاس روتےہوۓ آۓ رسول اللہ ﷺ ان آنکھوں کو پوچھا اور ان سےفرمایا وہ ظالم اگر اسی طرح ظلم کریں تو یہی جو تم نےکہا ہے دہرا دینا 
تفسیرجلالین شریف ، سورہ نحل  ص٢٢٦ ، حاشیہ نمبر ١٥
{قدیمی کتب خانہ کراچی}
مگر بہتر ہے کلمہ کفر نہ بکے خواہ قتل کیوں نہ ہوجاۓ! کیوں ممکن ہے وہ ظالم بعد قول کلمہ کفر بھی قتل کردے لہذا ایسی صورت میں درجہ شہادت پر فاٸز ہوگا 
علامہ سیدامین ابن عابدین شامی حنفی متوفی١٢٥٢ھ تحریر فرماتےہیں۔۔۔
(ومکرہ علیھا) أي: علی الردۃ، والمراد الإکراہ بملجیء من قتل أو قطع عضو أو ضرب مبرح فإنہ یرخص لہ أن یظھر ما أمر بہ علی لسانہ وقلبہ مطمئن بالإیمان
ردالمحتار  شرح الدرالمختار ، المجلدالسادس ، کتاب الجھاد ص ٢٥٩
{بیروت لبنان}
اور صدرالشریعہ مفتی امجد علی اعظمی متوفیٰ ١٣٦٧ھ تحریر فرماتےہیں ۔۔۔
اگر معاذ اﷲ کلمہ کفر جاری کرنے پر کوئی شخص مجبور کیا گیا، یعنی اسے مار ڈالنے یا اس کا عضو کاٹ ڈالنے کی صحیح دھمکی دی گئی کہ یہ دھمکانے والے کو اس بات کے کرنے پر قادر سمجھے تو ایسی حالت میں اس کو رخصت دی گئی ہے، مگر شرط یہ ہے کہ دل میں وہی اطمینان ایمانی ہو جو پیشتر تھا ، مگر افضل جب بھی یہی ہے کہ قتل ہو جائے اور کلمہ کفر نہ کہے
بہارشریعت ، حصہ ١ ص ١٧٤
{مکتبہ مدینہ دھلی}
واللہ و رسولہ اعلم 
کتبہ 
عبیداللّٰه حنفیؔ بریلوی مقام دھونرہ ٹانڈہ ضلع بریلی شریف {یوپی}
٢٦ / ذوالقعدہ / ١٤٤٤ھ
١٦/جون/ ٢٠٢٣ء









ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney