حضور ﷺ کا نسب نامہ حضرت آدم تک بیان کرنا کیسا ہے؟

سوال نمبر 2428

 السلام علیکم
کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیان عظام کہ موجودہ دور میں کچھ خطباء حضور نبی کریمﷺ کا نسب نامہ حضرت آدم علیہ السلام سے لیکر حضرت عبداللہ تک سناتے ہیں اسکی شرعی حیثیت کیا ہے؟
ساٸل ۔۔ صائم رضا رضوی ۔۔۔کشن گنج۔بہار
وَعَلَيْكُم السَّلَام وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎
الجواب بعون الملک الوہاب
نبی کریم ﷺ نے اپنا نسب شریف خود سے جناب معدبن عدنان تک شمار کرایا ہےاسکے آگے آپ نے سکوت فرمایاہے اور وہ اسطریقے سے بیان فرمایاکہ میرے والد عبداللہ 
اِنکے والد عبدالمطلب
اِنکےوالد ھاشم
اِنکے والد عبدمناف
اِنکے والد قصی
اِنکے والد کلاب
اِنکے والد مرہ
اِنکے والد کعب
اِنکے والد لٶی
اِنکے والد غالب
اِنکے والد فہر
اِنکے والد مالک
اِنکے والد نضر
اِنکے والد کنانہ
اِنکے والد خزیمہ
اِنکے والد مدرکہ
اِنکے والد الیاس
اِنکے والد مضر
اِنکے والد نزار
اِنکے والد معد 
اِنکے والد عدنان
یہ اکیس (٢١) اسماء ہیں جو آپ ﷺ نےشمار کراۓ اس سے آگے آپ نے سکوت اختیار کیا!
جیسا کہ حدیث شریف میں ہے۔۔
باب مبعث النبي صلی اللہ علیہ وسلم ، محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب بن ھاشم بن عبد مناف بن قصي بن کلاب بن مرة بن کعب بن لؤي بن غالب بن فھر بن مالک بن النضر بن کنانة بن خزیمة بن مدرکة بن إلیاس بن مضر بن نزار بن معد بن عدنان 
پھر حدیث اسی صفحہ ٧ کے آخیر میں ہے۔۔
عن ابن عباس ان النبیّ ﷺ کان اذا انتسب لم یجاوز فی نسبه معد بن عدنان!
 حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ جب اپنا نسب شریف بیان فرماتے تھے تو جناب عدنان سے تجاوز نہ فرماتے یعنی عدنان پر رک جاتے اس سے آگے بیان نہ فرماتے۔(صحیح البخاری ، المجلدالاول ، باب بنیان الکعبة ،ص٥٤٣مجلس برکات}

اور امام علامہ شیخ احمدبن محمد قسطلانی متوفی ٩٢٣ھ نے بھی اتنے ہی اسماء تحریر فرماتے ہوۓ لکھتےہیں(الوقوف بالنسب عندعدنان) قال ابن دحیة اجمع العلماء والاجماع حجة علی ان رسول اللہ ﷺ انما انتسب إلی عدنان ولم یتجاوزہ انتھیٰ 
یعنی ابن دحیہ کہتے ہیں کہ علماء اکابرین کا اجماع ہے اور اجماع حجت ہے کہ جب نبی کریم ﷺ کا نسب بیان کیا جاۓ تو جناب عدنان سے تجاوز نہ کیا جاۓ!(المواہب اللدنیة ، المجلدالاول ، ص ٩٤{بیروت لبنان}
اور اتنے ہی اسماء حضرت شیخ عبدالحق محدث دھلوی رحمہ اللہ نے ،، مدارج النبوت ،، بیان فرماۓہیں!لہذا صورت مسٶلہ میں حضورﷺ کا نسب حضرت عبداللہ سے حضرت عدنان تک ہی  بیان کیا جاۓ اس سے آگے بیان کرنا بے احتیاطی و جرأت مندی فی النقل ہے! 

ہاں علم تاریخ و سیر میں اختلافِ روایات بکثرت ہیں! پس اگر کوئی بطورِ اختلافِ روایات حوالوں سے مزین کر کے مزید بیان کرتا ہے تو اسے اس نقل کی بھی اجازت شرعاً ہوگی! مقولۂ مشہورہ ہے "نقلِ کفر کفر نباشد"اس لئے غیر محتاط اور غیر عالم کو وعظ کہنا حرام ٹھہرایا گیا ہے کہ وہ خود مستند نہیں تو اس کی بات مستند کیوں کر ہوگی ؟

لہذا حضور کے نسب کے بیان میں معد بن عدنان تک جانا مستند ہے اور آگے کا ذکر حوالوں سے ہو تو جائز و درست ورنہ غیر مستند و مشکوک ہی ہوگا جسے نقل و روایت میں بے احتیاطی اور جرات فی النقل ہی کہا جائے گا! واللہ و رسولہ اعلم 
کتبہ 
عبیداللّٰه حنفیؔ بریلوی مقام دھونرہ ٹانڈہ ضلع بریلی شریف {یوپی}
 ٢٦/محرم الحرام/ ١٤٤٥ھ
١٣/اگست/ ٢٠٢٣ء








ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney