صدقہ کافر یا دیوبندی کو دینا کیسا ہے؟

 سوال نمبر 2438

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ انسان بیماری میں یا کسی بھی پریشانی میں جان و مال کا صدقہ نکالے تو رقم کسی ایسے منگتے کو جو ہندو ہے یا وہابی ہے یا مسجد کے گیٹ پر مانگنے والوں کی پہچان نہیں ہوتی تو ان کو دینا کیسا ہے؟برائے مہربانی جواب عنایت فرمائیں 
المستفتی شہزاد خان اورنگ آباد مہاراشٹر

{بسم اللّٰه الرحمٰن الرحیم}
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته 

الجواب بعون الملک الوھاب: زکاۃ اور صدقۂ واجبہ مصارف زکوٰۃ کے علاوہ کسی کو دینا جائز نہیں ہے، لیکن صدقۂ نافلہ کے لئے یہ شرط نہیں ہے کہ کسی مسلمان ہی کو دے یہ صدقہ مسلم اور کافر جو ذمی ہے ان دونوں کو دے سکتے ہیں، لیکن وہابی جو کہ مرتد ہے اور حربی کافر کو دینا جائز نہیں ہے، اور یہاں (یعنی ملک ہندوستان) کے کافر حربی ہیں اس لئے انہیں کسی طرح کا صدقہ دینا جائز نہیں ہے۔

         ”در مختار“میں ہے: وأما ألحربي ولو مستأمنا فجميع الصدقات لا تجوز له اتفاقا۔اور حربی کافر اگرچہ امان لے کر دارالاسلام میں رہا ہو اسے کوئی بھی صدقہ دینا بالاتفاق جائز نہیں)۔(کتاب الزکاۃ، باب المصرف، مطلب في الحوائج الأصلية، ج ٣، ص ٣٥٣، مطبوعة المكتبة الأشرفية بديوبند)

         ”فتاوی تاتار خانیه”میں ہے: فالجملة في هذا أن جنس الصدقة يجوز صرفها إلى المسلم، ولا يجوز صرفها إلى الحربي، وأما أهل الذمة لا يجوز صرف الزكاة إليهم بالاتفاق، ويجوز صرف التطوع إليهم بالاتفاق۔(ترجمہ: صدقہ کی جنس سے اس میں خلاصہ یہ ہے کہ اس کو مسلم پر خرچ کرنا جائز ہے، اور حربی پر اس کو خرچ کرنا جائز نہیں ہے، اور رہے ذمی کافر تو ان زکاۃ صرف کرنا جائز نہیں ہے بالاتفاق، اور نفلی صدقہ کو ان پر خرچ کرنا جائز ہے)۔(كتاب الزكاة، الفصل ٨، ج ٣، ص ٢١١/ ٢١٢، مطبوعة مكتبة زكريا بديوبند الهند)

     اسی کے حاشیہ میں ہے (وقول المصنف: ويجوز صرف التطوع الخ)؛ استدل بعض الفقهاء على جواز الصدقة الناقلة لغير المسلم بهذه الآية والرواية التي أخرجها ابن أبي شيبة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لا تصدقوا إلا على أهل دينكم، فأنزل الله تعالى: ليس عليك هداهم إلى قوله " وما تنفقوا من خير يوف إليكم" رسول الله صلى الله عليه وسلم تصدقوا على أهل الأديان۔(ترجمہ: مصنف کا قول اور نفلی صدقہ کو صرف (خرچ) کرنا جائز ہے الخ؛ بعض فقہاء کرام نے غیر مسلم کے لئے نفلی صدقہ کے جائز ہونے پر اس آیت سے اور اس روایت سے استدلال کیا جس کی تخریج کی ابن ابی شیبہ نے فرمایا: کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ تم صدقہ نہ کرو مگر تمہارے دین والوں پر تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیۂ کریمہ نازل فرمائی کہ(لَیۡسَ عَلَیۡکَ هُدٰىهُمْ:ترجمہ کنز العرفان:لوگوں کوہدایت دے دینا تم پر لازم نہیں)اس آیت تک کہ ( وَ مَا تُنۡفِقُوۡا مِنۡ خَیۡرٍ یُّوَفَّ اِلَیۡکُمۡ:ترجمہ کنز العرفان: اور تم جو اچھی چیز خرچ کرو تو وہ تمہارے لئے ہی فائدہ مند ہے، البقرة، پ ٣، آيت ٢٧٢) فرمایا کہ پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تم صدقہ کرو تمام دینوں والوں پر)

          ”فتاوی ھندیہ“میں ہے: وأما أهل الذمة فلا يجوز صرف الزكاة اليهم بالاتفاق ويجوز صرف صدقة التطوع اليهم بالاتفاق۔
ترجمہ لیکن رہے ذمی کافر تو ان کی طرف زکوٰۃ صرف کرنا بالاتفاق جائز نہیں ہے، اور نفلی صدقہ انہیں دینا بالاتفاق جائز ہے۔(كتاب الزكاة، الباب السابع في المصارف، ج ١، ص ١٨٨، مطبوعة بولاق مصر المحمية)

          ”بہار شریعت“میں ہے: ذمّی کافر کو نہ زکاۃ دے سکتے ہیں ، نہ کوئی صدقۂ واجبہ جیسے نذر و کفّارہ و صدقۂ فطر  اور حربی کو کسی قسم کا صدقہ دینا جائز نہیں  نہ واجبہ نہ نفل، اگرچہ وہ دارالاسلام میں بادشاہِ اسلام سے امان لے کر آیا ہو۔ہندوستان اگرچہ دارالاسلام ہے مگر یہاں  کے کفار ذمّی نہیں، انھیں صدقات نفل مثلاً ہدیہ وغیرہ دینا بھی ناجائز ہے۔(ج ۱، ح ۵، ص ٩٣٠، مطبوعہ دعوت اسلامی)

         ”فتاوی فقیہ ملت“میں ہے: البتہ غیر مسلموں کو دینا ہرگز جائز نہیں کہ یہاں کے غیر مسلم حربی ہیں اور کا فر حربی پر کچھ بھی صدقہ کرنا جائز نہیں۔(باب طعام المیت وایصال الثواب، ج ۱، ص ٢٨٦، مطبوعہ شبیر برادرز لاہور)

           لہذا صورت مذکورہ میں کسی انسان نے بیماری یا کسی پریشانی کی حالت میں صدقۂ نافلہ کیا ہے تو وہ کسی ایسے کو دے جس کا مسلمان ہونا یقینی ہو کیوں کہ یہاں کفار حربی ہیں ان کو کوئی بھی صدقہ دینا جائز نہیں ہے، اور رہے دیوبندی اور وہابی تو وہ تو مرتد ہیں انہیں بھی دینا جائز نہیں ہے۔واللّٰه تعالیٰ عزوجل و رسوله ﷺ أعلم بالصواب

کتبہ
وکیل احمد صدیقی نقشبندی پھلودی جودھپور راجستھان
خادم:- الجامعۃ الصدیقیۃ سوجاشریف باڑمیر راجستھان (الھند)
٢٦ محرم الحرام ١٤٤٥۔ بروز پیر۔
14 اگست 2023۔









ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney